What's new

PTI was Danger to Pakistan, Pakistan wouldn't survive with them : General Bajwa

Acetic Acid

SENIOR MEMBER
Joined
May 10, 2021
Messages
2,479
Reaction score
1
Country
Pakistan
Location
Netherlands
ایکسپریس اردو
عمران خان کی جنرل باجوہ سے دو ملاقاتیں
جاوید چوہدری جمعرات 9 فروری 2022


یہ 18 اگست 2022 کی شام تھی‘ صدر عارف علوی کی صاحب زادی نے رات آٹھ بجے اپنی چند سہیلیوں کو کھانے پر ایوان صدر بلا رکھا تھا لیکن پھر سوا سات بجے فون آیا اور صدر پرائیویٹ کار میں صرف ملٹری سیکریٹری کے ساتھ ایوان صدر سے نکل گئے۔

ان کے ساتھ پروٹوکول اور سیکیورٹی کی کوئی گاڑی نہیں تھی‘ اس رات آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے طویل تعطل کے بعد ان کی پہلی ملاقات ہوئی‘ صدر عارف علوی کی خواہش تھی آرمی چیف عمران خان سے ملاقات کریں تاکہ دوریاں ختم ہو جائیں۔

جنرل باجوہ آج بھی مانتے ہیں صدر علوی نے پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کی ‘ یہ عمران خان‘ فوج اور ملک تینوں کے لیے فکر مند تھے لیکن عمران خان نے ان کے اخلاص کو وقعت نہیں دی اور یوں مسائل بڑھتے چلے گئے‘صدر اگلی صبح 19 اگست کو فیملی کے ساتھ کراچی چلے گئے لیکن پھر اسی سہ پہر انھیں فون کیا گیا اور یہ فوری طور پر واپس آ گئے۔
یہ نور خان ایئر بیس پر اترے اور انھیں پرائیویٹ کار میں پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بغیر آرمی چیف ہاؤس لے جایا گیا اور یہ رات ڈیڑھ بجے تک وہاں رہے۔

صدر نے اس رات کھانا بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ کھایا‘ یہ اگلی صبح 20 اگست کودوبارہ کراچی چلے گئے‘ انھیں تیسرا فون کراچی میں آیا اور 22 اگست کی رات آٹھ بجے ایوان صدر میں عمران خان اور جنرل باجوہ کی ملاقات طے ہو گئی۔

یہ ملاقات انتہائی خفیہ تھی‘ ایوان صدر کا گیٹ‘ لفٹ اور صدر کی رہائش گاہ کو مکمل خالی کرا دیاگیا تھا‘ کھانے کی میز پر چار کرسیاں لگائی گئی تھیں اور کھانا بھی مہمانوں کے آنے سے پہلے لگا دیا گیا تھا اور اس میں بھی یہ خیال رکھا گیا تھا کسی کو کسی سے کھانے کی کوئی چیز نہ مانگنی پڑے اور کسی کو کوئی چیز اٹھانے کے لیے کرسی سے بھی نہ اٹھنا پڑے‘ عمران خان پونے آٹھ بجے شبلی فراز کے ساتھ ایوان صدر میں صدر کی رہائش گاہ پہنچ گئے جب کہ جنرل باجوہ میجر جنرل محمد عرفان کے ساتھ آٹھ بجے پہنچے۔

شبلی فراز اور جنرل عرفان ویٹنگ روم میں بیٹھ گئے‘ یہ ملاقات میں شریک نہیں ہوئے‘ ملاقات 45 منٹ کی تھی اوریہ بری طرح ناکام ہو گئی‘ جنرل باجوہ نے عمران خان سے پوچھا‘ آپ مجھے میر صادق اور میر جعفر سمجھتے ہیں۔

آپ پھر مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟ عمران خان کا جواب تھا میں آپ کو نہیں نواز شریف اور شہباز شریف کو میر صادق اور میر جعفر کہتا ہوں‘ عمران خان کا مطالبہ تھا آپ ایم کیوا یم کو واپس لے لیں‘ حکومت گر جائے گی‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا‘ میں ایم کیو ایم کو نکالنے والا کون ہوتا ہوں اور فرض کریں اگر ایم کیو ایم نکل بھی جائے تو بھی آپ پارلیمنٹ میں نہیں ہیں۔

پی ڈی ایم میجارٹی کی بنیاد پر دوبارہ حکومت بنا لے گی لہٰذا اس ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہو گا؟ ملک مزید تباہ ہو جائے گا مگر عمران خان کا اصرار تھا آپ حکومت توڑدیں‘ یہ لوگ الیکشن پر مجبور ہو جائیں گے‘ جنرل باجوہ نے انکار کر دیا تھا‘ ان کا کہناتھا ملک انارکی کا شکار ہو جائے گا اور کوئی صحیح الدماغ شخص یہ نہیں چاہے گایوں میٹنگ میں ڈیڈ لاک آ گیا اور عمران خان کھانا کھائے بغیر ایوان صدر سے چلے گئے۔


جنرل باجوہ بھی تھوڑی دیر بعد ایوان صدر سے رخصت ہو گئے‘ صدر آخر میں بہت مایوس تھے‘ صدرکے اسٹاف نے میٹنگ کے بعد جہاں جہاں جنرل باجوہ اور جنرل عرفان بیٹھے تھے ان جگہوں کا تفصیل سے جائزہ لیا‘ ان کو خدشہ تھا ’’یہ لوگ‘‘ کہیں کوئی بگنگ ڈیوائس نہ لگا گئے ہوں‘ یہ حرکت بعدازاں رپورٹ ہو گئی اور فوج نے اس پر ٹھیک ٹھاک مائینڈ کیا۔

تین اور 8 ستمبر کو یہ ایکسرسائز دوبارہ دہرائی گئی‘ صدر پرائیویٹ کار میں ایوان صدر سے نکلے اور ان کی اسلام آباد اور راولپنڈی میں دو ملاقاتیں ہوئیں اور عمران خان کی جنرل باجوہ سے دوسری ملاقات ستمبر میں ہوئی۔


جنرل باجوہ صدر سے ہر ملاقات کے دوران صرف ایک ہی بات کرتے تھے‘ آپ عمران خان اور میاں شہباز شریف کو اکٹھا بٹھا دیں‘ تمام سیاسی مسائل کا حل صرف ان کی ملاقات سے نکلے گا‘ صدر نے سرتوڑ کوشش کی لیکن عمران خان نہیں مانے‘ جنرل باجوہ سے عمران خان کی دوسری ملاقات بھی ناکام ہو گئی۔

تاہم عمران خان پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی سیکنڈ ٹیئر لیڈر شپ میں ملاقات کے لیے راضی ہو گئے اور یوں ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی اسد قیصر اور پرویز خٹک کے ساتھ ملاقاتیں شروع ہو گئیں‘ ان ملاقاتوں میں بعدازاں اور لوگ بھی شامل ہو گئے اوریہ فارمولا طے ہو گیا‘ دسمبر میں حکومت مستعفی ہو جائے گی‘ میاں نواز شریف کے کیسز ختم ہو جائیں گے اور یہ واپس آئیں گے‘ چھ ماہ کی کیئر ٹیکر حکومت بنے گی‘ الیکشن جون میں ہوں گے۔


سکندر سلطان راجہ الیکشن کمشنر رہیں گے اور جنرل باجوہ الیکشن کے بعد ریٹائر ہوں گے‘ یہ فارمولا ’’وِن وِن سچویشن‘‘ تھی‘ میاں نواز شریف کے کیس ختم ہو رہے تھے‘ عمران خان کو الیکشن مل رہے تھے۔

الیکشن کمشنر کی عزت بحال ہو رہی تھی اور جنرل باجوہ کو آٹھ ماہ ایکسٹینشن دی جا رہی تھی لیکن اس دوران میاں نواز شریف اورجنرل باجوہ کے مشترکہ دوست شجاعت عظیم نے اپنی شبانہ محفل میں اس فارمولے کا ذکر کر دیا‘ یہ بات نکلی اور مختلف حلقوں میں ڈسکس ہونے لگی‘ یہ جنرل باجوہ کے کان تک پہنچی تو انھوں نے ملک محمد احمد کو فون کیا‘ ملک محمد احمد اس وقت ہیتھرو ایئرپورٹ سے باہر نکل رہے تھے۔

جنرل باجوہ نے ان سے کہا ’’میں ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتا‘ میں 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہا ہوں‘میں اس فارمولے میں نہیں ہوں‘‘ میاں نواز شریف نے بھی بعدازاں یہ فارمولا مسترد کر دیا‘ ان کا کہناتھا میری عزت بحال ہونی چاہیے۔

میں کسی لین دین کے ساتھ ملک واپس نہیں جانا چاہتا‘ دوسری طرف عمران خان کے ساتھیوں نے بھی انھیں سمجھایا‘ آپ نے اگر میاں نواز شریف کو رعایت دے دی تو آپ پر این آر او کا الزام لگ جائے گا اور یوں یہ فارمولا اور ایوان صدر کی دونوں ملاقاتیں ناکام ہو گئیں۔

میں نے جنرل باجوہ سے پوچھا ’’کیا آپ نے عمران خان کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے سے روکا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’یہ درست ہے میں نے عدم اعتماد کے بعد عمران خان کو میسج کیاتھا ‘ پرائم منسٹر آپ صرف ایک میچ ہارے ہیں‘ سیریزابھی باقی ہے۔

آپ اور حکومت میں صرف دو ووٹوں کا فرق ہے‘ آپ قومی اسمبلی سے استعفے دینے کی غلطی نہ کریں‘ یہ غلطی بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء نے کی تھی‘ حسینہ واجد نے اس کی پوری پارٹی تباہ کر دی تھی‘آپ اسمبلی میں رہیں‘ آپ کودوبارہ موقع مل جائے گا‘ عمران خان نے میرا میسج پڑھا لیکن جواب نہیں دیا اور یوں میرا ان سے رابطہ ختم ہو گیا۔

اس کے بعد ان سے اگست اور ستمبر میں دو ملاقاتیں ہوئیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے عمران خان کی حکومت کیوں گرائی؟‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’ہم نے ان کی حکومت نہیں گرائی‘ ہمارا جرم صرف یہ تھا ہم نے ان کی حکومت بچائی کیوں نہیں؟ عمران خان چاہتے تھے ہم آگے بڑھ کر ان کی حکومت بچائیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ یہ کر دیتے‘ آپ اس سے پہلے بھی تو یہ کرتے رہے تھے‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’میں اگراپنا فائدہ دیکھتا تو یہ میرے لیے سب سے زیادہ سوٹ ایبل تھا‘ میں عمران خان کو سپورٹ کرتا رہتا اور عزت کے ساتھ عمران خان سے فیئرویل لے کر ریٹائر ہو جاتا لیکن میں نے ملک کے لیے اپنے امیج کی قربانی دے دی۔

میں نے مشکل لیکن صحیح فیصلہ کیا‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ فیصلہ صحیح کیسے تھا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ہماری ریڈنگ تھی یہ لوگ ملک کے لیے خطرناک ہیں۔ یہ رہے تو ملک نہیں رہے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’مثلاً‘‘ یہ بولے ’’ مثلاً وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں سعودی کراؤن پرنس کو پنجابی میں … کہہ دیا‘ ان کے اپنے وزیر نے یہ بات لفظ بہ لفظ سعودی سفیر کو بتا دی اور سفیر مختلف لوگوں سے ان پنجابی الفاظ کا ترجمہ کرانے لگا‘ مثلاً ہم انھیں شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانے سے روکتے رہے۔

میں نے وزیراعظم سے کہا ‘سر یہ اپنابینک نہیں چلا سکا یہ اکانومی کا بھٹہ بٹھا دے گا لیکن یہ نہ مانے‘ شوکت ترین کے خلاف نیب میں آٹھ ارب روپے کی کرپشن کا کیس تھا‘ وزیراعظم نے الٹا ہم سے کہہ دیا آپ یہ کیس ختم کرائیں‘ ہم ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف میں پھنسے ہوئے تھے لہٰذا ہم مجبور ہو گئے اور یوں جنرل فیض حمید نے شوکت ترین کے نیب سے کیس ختم کرائے‘ مثلاً مجھے ایک شام گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا فون آیا‘ وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے‘ ان کا کہنا تھا شوکت ترین نے اکانومی کو بہت زیادہ ہیٹ اپ کر دیا ہے۔

ڈالر کے ریزروز تیزی سے نیچے آ رہے ہیں‘ ہمیں آپ کی انٹروینشن چاہیے یوں ہم وزیراعظم کے پاس جانے پر مجبور ہو گئے‘ حماد اظہر‘ اسد عمر‘ شوکت ترین اور رضا باقر بھی اس میٹنگ میں موجود تھے‘ میں نے وزیراعظم سے کہا‘ سر آپ 53 فیصد ٹیکس کسٹم سے جمع کر رہے ہیں‘یہ غلط ہے‘ ہم پھنس جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا یہ تو اچھی بات ہے‘ ٹیکس ریونیو بڑھ رہا ہے‘ میں نے کہا سر آپ ڈالر باہر بھجوا کر روپے جمع کر رہے ہیں‘ ملک اس طرح نہیں چل سکے گا‘ آپ شوکت ترین کو روکیں ورنہ ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے۔

رضا باقر نے تائید کی‘ وزیراعظم نے حامی بھر لی لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا‘ میٹنگ کے بعد اسد عمر نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ ہم غلط سائیڈ پر چل پڑے ہیں‘ آپ نے جو کام ہمیں آج بتائے ہیں یہ ہمیں گزرے ہوئے کل میں کر لینے چاہیے تھے‘‘ آپ اسد عمر سے پوچھ لیں‘ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں
IMG_20230209_193458.jpg
IMG_20230209_194131.jpg


ایکسپریس اردو
عمران خان کی جنرل باجوہ سے دو ملاقاتیں
جاوید چوہدری جمعرات 9 فروری 2022


یہ 18 اگست 2022 کی شام تھی‘ صدر عارف علوی کی صاحب زادی نے رات آٹھ بجے اپنی چند سہیلیوں کو کھانے پر ایوان صدر بلا رکھا تھا لیکن پھر سوا سات بجے فون آیا اور صدر پرائیویٹ کار میں صرف ملٹری سیکریٹری کے ساتھ ایوان صدر سے نکل گئے۔

ان کے ساتھ پروٹوکول اور سیکیورٹی کی کوئی گاڑی نہیں تھی‘ اس رات آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے طویل تعطل کے بعد ان کی پہلی ملاقات ہوئی‘ صدر عارف علوی کی خواہش تھی آرمی چیف عمران خان سے ملاقات کریں تاکہ دوریاں ختم ہو جائیں۔

جنرل باجوہ آج بھی مانتے ہیں صدر علوی نے پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کی ‘ یہ عمران خان‘ فوج اور ملک تینوں کے لیے فکر مند تھے لیکن عمران خان نے ان کے اخلاص کو وقعت نہیں دی اور یوں مسائل بڑھتے چلے گئے‘صدر اگلی صبح 19 اگست کو فیملی کے ساتھ کراچی چلے گئے لیکن پھر اسی سہ پہر انھیں فون کیا گیا اور یہ فوری طور پر واپس آ گئے۔
یہ نور خان ایئر بیس پر اترے اور انھیں پرائیویٹ کار میں پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بغیر آرمی چیف ہاؤس لے جایا گیا اور یہ رات ڈیڑھ بجے تک وہاں رہے۔

صدر نے اس رات کھانا بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ کھایا‘ یہ اگلی صبح 20 اگست کودوبارہ کراچی چلے گئے‘ انھیں تیسرا فون کراچی میں آیا اور 22 اگست کی رات آٹھ بجے ایوان صدر میں عمران خان اور جنرل باجوہ کی ملاقات طے ہو گئی۔

یہ ملاقات انتہائی خفیہ تھی‘ ایوان صدر کا گیٹ‘ لفٹ اور صدر کی رہائش گاہ کو مکمل خالی کرا دیاگیا تھا‘ کھانے کی میز پر چار کرسیاں لگائی گئی تھیں اور کھانا بھی مہمانوں کے آنے سے پہلے لگا دیا گیا تھا اور اس میں بھی یہ خیال رکھا گیا تھا کسی کو کسی سے کھانے کی کوئی چیز نہ مانگنی پڑے اور کسی کو کوئی چیز اٹھانے کے لیے کرسی سے بھی نہ اٹھنا پڑے‘ عمران خان پونے آٹھ بجے شبلی فراز کے ساتھ ایوان صدر میں صدر کی رہائش گاہ پہنچ گئے جب کہ جنرل باجوہ میجر جنرل محمد عرفان کے ساتھ آٹھ بجے پہنچے۔

شبلی فراز اور جنرل عرفان ویٹنگ روم میں بیٹھ گئے‘ یہ ملاقات میں شریک نہیں ہوئے‘ ملاقات 45 منٹ کی تھی اوریہ بری طرح ناکام ہو گئی‘ جنرل باجوہ نے عمران خان سے پوچھا‘ آپ مجھے میر صادق اور میر جعفر سمجھتے ہیں۔

آپ پھر مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟ عمران خان کا جواب تھا میں آپ کو نہیں نواز شریف اور شہباز شریف کو میر صادق اور میر جعفر کہتا ہوں‘ عمران خان کا مطالبہ تھا آپ ایم کیوا یم کو واپس لے لیں‘ حکومت گر جائے گی‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا‘ میں ایم کیو ایم کو نکالنے والا کون ہوتا ہوں اور فرض کریں اگر ایم کیو ایم نکل بھی جائے تو بھی آپ پارلیمنٹ میں نہیں ہیں۔

پی ڈی ایم میجارٹی کی بنیاد پر دوبارہ حکومت بنا لے گی لہٰذا اس ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہو گا؟ ملک مزید تباہ ہو جائے گا مگر عمران خان کا اصرار تھا آپ حکومت توڑدیں‘ یہ لوگ الیکشن پر مجبور ہو جائیں گے‘ جنرل باجوہ نے انکار کر دیا تھا‘ ان کا کہناتھا ملک انارکی کا شکار ہو جائے گا اور کوئی صحیح الدماغ شخص یہ نہیں چاہے گایوں میٹنگ میں ڈیڈ لاک آ گیا اور عمران خان کھانا کھائے بغیر ایوان صدر سے چلے گئے۔


جنرل باجوہ بھی تھوڑی دیر بعد ایوان صدر سے رخصت ہو گئے‘ صدر آخر میں بہت مایوس تھے‘ صدرکے اسٹاف نے میٹنگ کے بعد جہاں جہاں جنرل باجوہ اور جنرل عرفان بیٹھے تھے ان جگہوں کا تفصیل سے جائزہ لیا‘ ان کو خدشہ تھا ’’یہ لوگ‘‘ کہیں کوئی بگنگ ڈیوائس نہ لگا گئے ہوں‘ یہ حرکت بعدازاں رپورٹ ہو گئی اور فوج نے اس پر ٹھیک ٹھاک مائینڈ کیا۔

تین اور 8 ستمبر کو یہ ایکسرسائز دوبارہ دہرائی گئی‘ صدر پرائیویٹ کار میں ایوان صدر سے نکلے اور ان کی اسلام آباد اور راولپنڈی میں دو ملاقاتیں ہوئیں اور عمران خان کی جنرل باجوہ سے دوسری ملاقات ستمبر میں ہوئی۔


جنرل باجوہ صدر سے ہر ملاقات کے دوران صرف ایک ہی بات کرتے تھے‘ آپ عمران خان اور میاں شہباز شریف کو اکٹھا بٹھا دیں‘ تمام سیاسی مسائل کا حل صرف ان کی ملاقات سے نکلے گا‘ صدر نے سرتوڑ کوشش کی لیکن عمران خان نہیں مانے‘ جنرل باجوہ سے عمران خان کی دوسری ملاقات بھی ناکام ہو گئی۔

تاہم عمران خان پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی سیکنڈ ٹیئر لیڈر شپ میں ملاقات کے لیے راضی ہو گئے اور یوں ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی اسد قیصر اور پرویز خٹک کے ساتھ ملاقاتیں شروع ہو گئیں‘ ان ملاقاتوں میں بعدازاں اور لوگ بھی شامل ہو گئے اوریہ فارمولا طے ہو گیا‘ دسمبر میں حکومت مستعفی ہو جائے گی‘ میاں نواز شریف کے کیسز ختم ہو جائیں گے اور یہ واپس آئیں گے‘ چھ ماہ کی کیئر ٹیکر حکومت بنے گی‘ الیکشن جون میں ہوں گے۔


سکندر سلطان راجہ الیکشن کمشنر رہیں گے اور جنرل باجوہ الیکشن کے بعد ریٹائر ہوں گے‘ یہ فارمولا ’’وِن وِن سچویشن‘‘ تھی‘ میاں نواز شریف کے کیس ختم ہو رہے تھے‘ عمران خان کو الیکشن مل رہے تھے۔

الیکشن کمشنر کی عزت بحال ہو رہی تھی اور جنرل باجوہ کو آٹھ ماہ ایکسٹینشن دی جا رہی تھی لیکن اس دوران میاں نواز شریف اورجنرل باجوہ کے مشترکہ دوست شجاعت عظیم نے اپنی شبانہ محفل میں اس فارمولے کا ذکر کر دیا‘ یہ بات نکلی اور مختلف حلقوں میں ڈسکس ہونے لگی‘ یہ جنرل باجوہ کے کان تک پہنچی تو انھوں نے ملک محمد احمد کو فون کیا‘ ملک محمد احمد اس وقت ہیتھرو ایئرپورٹ سے باہر نکل رہے تھے۔

جنرل باجوہ نے ان سے کہا ’’میں ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتا‘ میں 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہا ہوں‘میں اس فارمولے میں نہیں ہوں‘‘ میاں نواز شریف نے بھی بعدازاں یہ فارمولا مسترد کر دیا‘ ان کا کہناتھا میری عزت بحال ہونی چاہیے۔

میں کسی لین دین کے ساتھ ملک واپس نہیں جانا چاہتا‘ دوسری طرف عمران خان کے ساتھیوں نے بھی انھیں سمجھایا‘ آپ نے اگر میاں نواز شریف کو رعایت دے دی تو آپ پر این آر او کا الزام لگ جائے گا اور یوں یہ فارمولا اور ایوان صدر کی دونوں ملاقاتیں ناکام ہو گئیں۔

میں نے جنرل باجوہ سے پوچھا ’’کیا آپ نے عمران خان کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے سے روکا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’یہ درست ہے میں نے عدم اعتماد کے بعد عمران خان کو میسج کیاتھا ‘ پرائم منسٹر آپ صرف ایک میچ ہارے ہیں‘ سیریزابھی باقی ہے۔

آپ اور حکومت میں صرف دو ووٹوں کا فرق ہے‘ آپ قومی اسمبلی سے استعفے دینے کی غلطی نہ کریں‘ یہ غلطی بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء نے کی تھی‘ حسینہ واجد نے اس کی پوری پارٹی تباہ کر دی تھی‘آپ اسمبلی میں رہیں‘ آپ کودوبارہ موقع مل جائے گا‘ عمران خان نے میرا میسج پڑھا لیکن جواب نہیں دیا اور یوں میرا ان سے رابطہ ختم ہو گیا۔

اس کے بعد ان سے اگست اور ستمبر میں دو ملاقاتیں ہوئیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے عمران خان کی حکومت کیوں گرائی؟‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’ہم نے ان کی حکومت نہیں گرائی‘ ہمارا جرم صرف یہ تھا ہم نے ان کی حکومت بچائی کیوں نہیں؟ عمران خان چاہتے تھے ہم آگے بڑھ کر ان کی حکومت بچائیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ یہ کر دیتے‘ آپ اس سے پہلے بھی تو یہ کرتے رہے تھے‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’میں اگراپنا فائدہ دیکھتا تو یہ میرے لیے سب سے زیادہ سوٹ ایبل تھا‘ میں عمران خان کو سپورٹ کرتا رہتا اور عزت کے ساتھ عمران خان سے فیئرویل لے کر ریٹائر ہو جاتا لیکن میں نے ملک کے لیے اپنے امیج کی قربانی دے دی۔

میں نے مشکل لیکن صحیح فیصلہ کیا‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ فیصلہ صحیح کیسے تھا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ہماری ریڈنگ تھی یہ لوگ ملک کے لیے خطرناک ہیں۔ یہ رہے تو ملک نہیں رہے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’مثلاً‘‘ یہ بولے ’’ مثلاً وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں سعودی کراؤن پرنس کو پنجابی میں … کہہ دیا‘ ان کے اپنے وزیر نے یہ بات لفظ بہ لفظ سعودی سفیر کو بتا دی اور سفیر مختلف لوگوں سے ان پنجابی الفاظ کا ترجمہ کرانے لگا‘ مثلاً ہم انھیں شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانے سے روکتے رہے۔

میں نے وزیراعظم سے کہا ‘سر یہ اپنابینک نہیں چلا سکا یہ اکانومی کا بھٹہ بٹھا دے گا لیکن یہ نہ مانے‘ شوکت ترین کے خلاف نیب میں آٹھ ارب روپے کی کرپشن کا کیس تھا‘ وزیراعظم نے الٹا ہم سے کہہ دیا آپ یہ کیس ختم کرائیں‘ ہم ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف میں پھنسے ہوئے تھے لہٰذا ہم مجبور ہو گئے اور یوں جنرل فیض حمید نے شوکت ترین کے نیب سے کیس ختم کرائے‘ مثلاً مجھے ایک شام گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا فون آیا‘ وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے‘ ان کا کہنا تھا شوکت ترین نے اکانومی کو بہت زیادہ ہیٹ اپ کر دیا ہے۔

ڈالر کے ریزروز تیزی سے نیچے آ رہے ہیں‘ ہمیں آپ کی انٹروینشن چاہیے یوں ہم وزیراعظم کے پاس جانے پر مجبور ہو گئے‘ حماد اظہر‘ اسد عمر‘ شوکت ترین اور رضا باقر بھی اس میٹنگ میں موجود تھے‘ میں نے وزیراعظم سے کہا‘ سر آپ 53 فیصد ٹیکس کسٹم سے جمع کر رہے ہیں‘یہ غلط ہے‘ ہم پھنس جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا یہ تو اچھی بات ہے‘ ٹیکس ریونیو بڑھ رہا ہے‘ میں نے کہا سر آپ ڈالر باہر بھجوا کر روپے جمع کر رہے ہیں‘ ملک اس طرح نہیں چل سکے گا‘ آپ شوکت ترین کو روکیں ورنہ ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے۔

رضا باقر نے تائید کی‘ وزیراعظم نے حامی بھر لی لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا‘ میٹنگ کے بعد اسد عمر نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ ہم غلط سائیڈ پر چل پڑے ہیں‘ آپ نے جو کام ہمیں آج بتائے ہیں یہ ہمیں گزرے ہوئے کل میں کر لینے چاہیے تھے‘‘ آپ اسد عمر سے پوچھ لیں‘ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں
IMG_20230209_193458.jpg
IMG_20230209_194131.jpg


Just imagine if PTI says

Pak army is threat to Pakistan(which is actually true) and it should cease to exist

Imagine the aghast and number of FIRs and kidnappings
 
ایکسپریس اردو
عمران خان کی جنرل باجوہ سے دو ملاقاتیں
جاوید چوہدری جمعرات 9 فروری 2022


یہ 18 اگست 2022 کی شام تھی‘ صدر عارف علوی کی صاحب زادی نے رات آٹھ بجے اپنی چند سہیلیوں کو کھانے پر ایوان صدر بلا رکھا تھا لیکن پھر سوا سات بجے فون آیا اور صدر پرائیویٹ کار میں صرف ملٹری سیکریٹری کے ساتھ ایوان صدر سے نکل گئے۔

ان کے ساتھ پروٹوکول اور سیکیورٹی کی کوئی گاڑی نہیں تھی‘ اس رات آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے طویل تعطل کے بعد ان کی پہلی ملاقات ہوئی‘ صدر عارف علوی کی خواہش تھی آرمی چیف عمران خان سے ملاقات کریں تاکہ دوریاں ختم ہو جائیں۔

جنرل باجوہ آج بھی مانتے ہیں صدر علوی نے پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کی ‘ یہ عمران خان‘ فوج اور ملک تینوں کے لیے فکر مند تھے لیکن عمران خان نے ان کے اخلاص کو وقعت نہیں دی اور یوں مسائل بڑھتے چلے گئے‘صدر اگلی صبح 19 اگست کو فیملی کے ساتھ کراچی چلے گئے لیکن پھر اسی سہ پہر انھیں فون کیا گیا اور یہ فوری طور پر واپس آ گئے۔
یہ نور خان ایئر بیس پر اترے اور انھیں پرائیویٹ کار میں پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بغیر آرمی چیف ہاؤس لے جایا گیا اور یہ رات ڈیڑھ بجے تک وہاں رہے۔

صدر نے اس رات کھانا بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ کھایا‘ یہ اگلی صبح 20 اگست کودوبارہ کراچی چلے گئے‘ انھیں تیسرا فون کراچی میں آیا اور 22 اگست کی رات آٹھ بجے ایوان صدر میں عمران خان اور جنرل باجوہ کی ملاقات طے ہو گئی۔

یہ ملاقات انتہائی خفیہ تھی‘ ایوان صدر کا گیٹ‘ لفٹ اور صدر کی رہائش گاہ کو مکمل خالی کرا دیاگیا تھا‘ کھانے کی میز پر چار کرسیاں لگائی گئی تھیں اور کھانا بھی مہمانوں کے آنے سے پہلے لگا دیا گیا تھا اور اس میں بھی یہ خیال رکھا گیا تھا کسی کو کسی سے کھانے کی کوئی چیز نہ مانگنی پڑے اور کسی کو کوئی چیز اٹھانے کے لیے کرسی سے بھی نہ اٹھنا پڑے‘ عمران خان پونے آٹھ بجے شبلی فراز کے ساتھ ایوان صدر میں صدر کی رہائش گاہ پہنچ گئے جب کہ جنرل باجوہ میجر جنرل محمد عرفان کے ساتھ آٹھ بجے پہنچے۔

شبلی فراز اور جنرل عرفان ویٹنگ روم میں بیٹھ گئے‘ یہ ملاقات میں شریک نہیں ہوئے‘ ملاقات 45 منٹ کی تھی اوریہ بری طرح ناکام ہو گئی‘ جنرل باجوہ نے عمران خان سے پوچھا‘ آپ مجھے میر صادق اور میر جعفر سمجھتے ہیں۔

آپ پھر مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟ عمران خان کا جواب تھا میں آپ کو نہیں نواز شریف اور شہباز شریف کو میر صادق اور میر جعفر کہتا ہوں‘ عمران خان کا مطالبہ تھا آپ ایم کیوا یم کو واپس لے لیں‘ حکومت گر جائے گی‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا‘ میں ایم کیو ایم کو نکالنے والا کون ہوتا ہوں اور فرض کریں اگر ایم کیو ایم نکل بھی جائے تو بھی آپ پارلیمنٹ میں نہیں ہیں۔

پی ڈی ایم میجارٹی کی بنیاد پر دوبارہ حکومت بنا لے گی لہٰذا اس ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہو گا؟ ملک مزید تباہ ہو جائے گا مگر عمران خان کا اصرار تھا آپ حکومت توڑدیں‘ یہ لوگ الیکشن پر مجبور ہو جائیں گے‘ جنرل باجوہ نے انکار کر دیا تھا‘ ان کا کہناتھا ملک انارکی کا شکار ہو جائے گا اور کوئی صحیح الدماغ شخص یہ نہیں چاہے گایوں میٹنگ میں ڈیڈ لاک آ گیا اور عمران خان کھانا کھائے بغیر ایوان صدر سے چلے گئے۔


جنرل باجوہ بھی تھوڑی دیر بعد ایوان صدر سے رخصت ہو گئے‘ صدر آخر میں بہت مایوس تھے‘ صدرکے اسٹاف نے میٹنگ کے بعد جہاں جہاں جنرل باجوہ اور جنرل عرفان بیٹھے تھے ان جگہوں کا تفصیل سے جائزہ لیا‘ ان کو خدشہ تھا ’’یہ لوگ‘‘ کہیں کوئی بگنگ ڈیوائس نہ لگا گئے ہوں‘ یہ حرکت بعدازاں رپورٹ ہو گئی اور فوج نے اس پر ٹھیک ٹھاک مائینڈ کیا۔

تین اور 8 ستمبر کو یہ ایکسرسائز دوبارہ دہرائی گئی‘ صدر پرائیویٹ کار میں ایوان صدر سے نکلے اور ان کی اسلام آباد اور راولپنڈی میں دو ملاقاتیں ہوئیں اور عمران خان کی جنرل باجوہ سے دوسری ملاقات ستمبر میں ہوئی۔


جنرل باجوہ صدر سے ہر ملاقات کے دوران صرف ایک ہی بات کرتے تھے‘ آپ عمران خان اور میاں شہباز شریف کو اکٹھا بٹھا دیں‘ تمام سیاسی مسائل کا حل صرف ان کی ملاقات سے نکلے گا‘ صدر نے سرتوڑ کوشش کی لیکن عمران خان نہیں مانے‘ جنرل باجوہ سے عمران خان کی دوسری ملاقات بھی ناکام ہو گئی۔

تاہم عمران خان پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی سیکنڈ ٹیئر لیڈر شپ میں ملاقات کے لیے راضی ہو گئے اور یوں ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی اسد قیصر اور پرویز خٹک کے ساتھ ملاقاتیں شروع ہو گئیں‘ ان ملاقاتوں میں بعدازاں اور لوگ بھی شامل ہو گئے اوریہ فارمولا طے ہو گیا‘ دسمبر میں حکومت مستعفی ہو جائے گی‘ میاں نواز شریف کے کیسز ختم ہو جائیں گے اور یہ واپس آئیں گے‘ چھ ماہ کی کیئر ٹیکر حکومت بنے گی‘ الیکشن جون میں ہوں گے۔


سکندر سلطان راجہ الیکشن کمشنر رہیں گے اور جنرل باجوہ الیکشن کے بعد ریٹائر ہوں گے‘ یہ فارمولا ’’وِن وِن سچویشن‘‘ تھی‘ میاں نواز شریف کے کیس ختم ہو رہے تھے‘ عمران خان کو الیکشن مل رہے تھے۔

الیکشن کمشنر کی عزت بحال ہو رہی تھی اور جنرل باجوہ کو آٹھ ماہ ایکسٹینشن دی جا رہی تھی لیکن اس دوران میاں نواز شریف اورجنرل باجوہ کے مشترکہ دوست شجاعت عظیم نے اپنی شبانہ محفل میں اس فارمولے کا ذکر کر دیا‘ یہ بات نکلی اور مختلف حلقوں میں ڈسکس ہونے لگی‘ یہ جنرل باجوہ کے کان تک پہنچی تو انھوں نے ملک محمد احمد کو فون کیا‘ ملک محمد احمد اس وقت ہیتھرو ایئرپورٹ سے باہر نکل رہے تھے۔

جنرل باجوہ نے ان سے کہا ’’میں ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتا‘ میں 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہا ہوں‘میں اس فارمولے میں نہیں ہوں‘‘ میاں نواز شریف نے بھی بعدازاں یہ فارمولا مسترد کر دیا‘ ان کا کہناتھا میری عزت بحال ہونی چاہیے۔

میں کسی لین دین کے ساتھ ملک واپس نہیں جانا چاہتا‘ دوسری طرف عمران خان کے ساتھیوں نے بھی انھیں سمجھایا‘ آپ نے اگر میاں نواز شریف کو رعایت دے دی تو آپ پر این آر او کا الزام لگ جائے گا اور یوں یہ فارمولا اور ایوان صدر کی دونوں ملاقاتیں ناکام ہو گئیں۔

میں نے جنرل باجوہ سے پوچھا ’’کیا آپ نے عمران خان کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے سے روکا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’یہ درست ہے میں نے عدم اعتماد کے بعد عمران خان کو میسج کیاتھا ‘ پرائم منسٹر آپ صرف ایک میچ ہارے ہیں‘ سیریزابھی باقی ہے۔

آپ اور حکومت میں صرف دو ووٹوں کا فرق ہے‘ آپ قومی اسمبلی سے استعفے دینے کی غلطی نہ کریں‘ یہ غلطی بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء نے کی تھی‘ حسینہ واجد نے اس کی پوری پارٹی تباہ کر دی تھی‘آپ اسمبلی میں رہیں‘ آپ کودوبارہ موقع مل جائے گا‘ عمران خان نے میرا میسج پڑھا لیکن جواب نہیں دیا اور یوں میرا ان سے رابطہ ختم ہو گیا۔

اس کے بعد ان سے اگست اور ستمبر میں دو ملاقاتیں ہوئیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے عمران خان کی حکومت کیوں گرائی؟‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’ہم نے ان کی حکومت نہیں گرائی‘ ہمارا جرم صرف یہ تھا ہم نے ان کی حکومت بچائی کیوں نہیں؟ عمران خان چاہتے تھے ہم آگے بڑھ کر ان کی حکومت بچائیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ یہ کر دیتے‘ آپ اس سے پہلے بھی تو یہ کرتے رہے تھے‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’میں اگراپنا فائدہ دیکھتا تو یہ میرے لیے سب سے زیادہ سوٹ ایبل تھا‘ میں عمران خان کو سپورٹ کرتا رہتا اور عزت کے ساتھ عمران خان سے فیئرویل لے کر ریٹائر ہو جاتا لیکن میں نے ملک کے لیے اپنے امیج کی قربانی دے دی۔

میں نے مشکل لیکن صحیح فیصلہ کیا‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ فیصلہ صحیح کیسے تھا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ہماری ریڈنگ تھی یہ لوگ ملک کے لیے خطرناک ہیں۔ یہ رہے تو ملک نہیں رہے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’مثلاً‘‘ یہ بولے ’’ مثلاً وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں سعودی کراؤن پرنس کو پنجابی میں … کہہ دیا‘ ان کے اپنے وزیر نے یہ بات لفظ بہ لفظ سعودی سفیر کو بتا دی اور سفیر مختلف لوگوں سے ان پنجابی الفاظ کا ترجمہ کرانے لگا‘ مثلاً ہم انھیں شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانے سے روکتے رہے۔

میں نے وزیراعظم سے کہا ‘سر یہ اپنابینک نہیں چلا سکا یہ اکانومی کا بھٹہ بٹھا دے گا لیکن یہ نہ مانے‘ شوکت ترین کے خلاف نیب میں آٹھ ارب روپے کی کرپشن کا کیس تھا‘ وزیراعظم نے الٹا ہم سے کہہ دیا آپ یہ کیس ختم کرائیں‘ ہم ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف میں پھنسے ہوئے تھے لہٰذا ہم مجبور ہو گئے اور یوں جنرل فیض حمید نے شوکت ترین کے نیب سے کیس ختم کرائے‘ مثلاً مجھے ایک شام گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا فون آیا‘ وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے‘ ان کا کہنا تھا شوکت ترین نے اکانومی کو بہت زیادہ ہیٹ اپ کر دیا ہے۔

ڈالر کے ریزروز تیزی سے نیچے آ رہے ہیں‘ ہمیں آپ کی انٹروینشن چاہیے یوں ہم وزیراعظم کے پاس جانے پر مجبور ہو گئے‘ حماد اظہر‘ اسد عمر‘ شوکت ترین اور رضا باقر بھی اس میٹنگ میں موجود تھے‘ میں نے وزیراعظم سے کہا‘ سر آپ 53 فیصد ٹیکس کسٹم سے جمع کر رہے ہیں‘یہ غلط ہے‘ ہم پھنس جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا یہ تو اچھی بات ہے‘ ٹیکس ریونیو بڑھ رہا ہے‘ میں نے کہا سر آپ ڈالر باہر بھجوا کر روپے جمع کر رہے ہیں‘ ملک اس طرح نہیں چل سکے گا‘ آپ شوکت ترین کو روکیں ورنہ ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے۔

رضا باقر نے تائید کی‘ وزیراعظم نے حامی بھر لی لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا‘ میٹنگ کے بعد اسد عمر نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ ہم غلط سائیڈ پر چل پڑے ہیں‘ آپ نے جو کام ہمیں آج بتائے ہیں یہ ہمیں گزرے ہوئے کل میں کر لینے چاہیے تھے‘‘ آپ اسد عمر سے پوچھ لیں‘ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں View attachment 915765View attachment 915766




Just imagine if PTI says

Pak army is threat to Pakistan(which is actually true) and it should cease to exist

Imagine the aghast and number of FIRs and kidnappings
Gern
ایکسپریس اردو
عمران خان کی جنرل باجوہ سے دو ملاقاتیں
جاوید چوہدری جمعرات 9 فروری 2022


یہ 18 اگست 2022 کی شام تھی‘ صدر عارف علوی کی صاحب زادی نے رات آٹھ بجے اپنی چند سہیلیوں کو کھانے پر ایوان صدر بلا رکھا تھا لیکن پھر سوا سات بجے فون آیا اور صدر پرائیویٹ کار میں صرف ملٹری سیکریٹری کے ساتھ ایوان صدر سے نکل گئے۔

ان کے ساتھ پروٹوکول اور سیکیورٹی کی کوئی گاڑی نہیں تھی‘ اس رات آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے طویل تعطل کے بعد ان کی پہلی ملاقات ہوئی‘ صدر عارف علوی کی خواہش تھی آرمی چیف عمران خان سے ملاقات کریں تاکہ دوریاں ختم ہو جائیں۔

جنرل باجوہ آج بھی مانتے ہیں صدر علوی نے پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کی ‘ یہ عمران خان‘ فوج اور ملک تینوں کے لیے فکر مند تھے لیکن عمران خان نے ان کے اخلاص کو وقعت نہیں دی اور یوں مسائل بڑھتے چلے گئے‘صدر اگلی صبح 19 اگست کو فیملی کے ساتھ کراچی چلے گئے لیکن پھر اسی سہ پہر انھیں فون کیا گیا اور یہ فوری طور پر واپس آ گئے۔
یہ نور خان ایئر بیس پر اترے اور انھیں پرائیویٹ کار میں پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بغیر آرمی چیف ہاؤس لے جایا گیا اور یہ رات ڈیڑھ بجے تک وہاں رہے۔

صدر نے اس رات کھانا بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ کھایا‘ یہ اگلی صبح 20 اگست کودوبارہ کراچی چلے گئے‘ انھیں تیسرا فون کراچی میں آیا اور 22 اگست کی رات آٹھ بجے ایوان صدر میں عمران خان اور جنرل باجوہ کی ملاقات طے ہو گئی۔

یہ ملاقات انتہائی خفیہ تھی‘ ایوان صدر کا گیٹ‘ لفٹ اور صدر کی رہائش گاہ کو مکمل خالی کرا دیاگیا تھا‘ کھانے کی میز پر چار کرسیاں لگائی گئی تھیں اور کھانا بھی مہمانوں کے آنے سے پہلے لگا دیا گیا تھا اور اس میں بھی یہ خیال رکھا گیا تھا کسی کو کسی سے کھانے کی کوئی چیز نہ مانگنی پڑے اور کسی کو کوئی چیز اٹھانے کے لیے کرسی سے بھی نہ اٹھنا پڑے‘ عمران خان پونے آٹھ بجے شبلی فراز کے ساتھ ایوان صدر میں صدر کی رہائش گاہ پہنچ گئے جب کہ جنرل باجوہ میجر جنرل محمد عرفان کے ساتھ آٹھ بجے پہنچے۔

شبلی فراز اور جنرل عرفان ویٹنگ روم میں بیٹھ گئے‘ یہ ملاقات میں شریک نہیں ہوئے‘ ملاقات 45 منٹ کی تھی اوریہ بری طرح ناکام ہو گئی‘ جنرل باجوہ نے عمران خان سے پوچھا‘ آپ مجھے میر صادق اور میر جعفر سمجھتے ہیں۔

آپ پھر مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟ عمران خان کا جواب تھا میں آپ کو نہیں نواز شریف اور شہباز شریف کو میر صادق اور میر جعفر کہتا ہوں‘ عمران خان کا مطالبہ تھا آپ ایم کیوا یم کو واپس لے لیں‘ حکومت گر جائے گی‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا‘ میں ایم کیو ایم کو نکالنے والا کون ہوتا ہوں اور فرض کریں اگر ایم کیو ایم نکل بھی جائے تو بھی آپ پارلیمنٹ میں نہیں ہیں۔

پی ڈی ایم میجارٹی کی بنیاد پر دوبارہ حکومت بنا لے گی لہٰذا اس ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہو گا؟ ملک مزید تباہ ہو جائے گا مگر عمران خان کا اصرار تھا آپ حکومت توڑدیں‘ یہ لوگ الیکشن پر مجبور ہو جائیں گے‘ جنرل باجوہ نے انکار کر دیا تھا‘ ان کا کہناتھا ملک انارکی کا شکار ہو جائے گا اور کوئی صحیح الدماغ شخص یہ نہیں چاہے گایوں میٹنگ میں ڈیڈ لاک آ گیا اور عمران خان کھانا کھائے بغیر ایوان صدر سے چلے گئے۔


جنرل باجوہ بھی تھوڑی دیر بعد ایوان صدر سے رخصت ہو گئے‘ صدر آخر میں بہت مایوس تھے‘ صدرکے اسٹاف نے میٹنگ کے بعد جہاں جہاں جنرل باجوہ اور جنرل عرفان بیٹھے تھے ان جگہوں کا تفصیل سے جائزہ لیا‘ ان کو خدشہ تھا ’’یہ لوگ‘‘ کہیں کوئی بگنگ ڈیوائس نہ لگا گئے ہوں‘ یہ حرکت بعدازاں رپورٹ ہو گئی اور فوج نے اس پر ٹھیک ٹھاک مائینڈ کیا۔

تین اور 8 ستمبر کو یہ ایکسرسائز دوبارہ دہرائی گئی‘ صدر پرائیویٹ کار میں ایوان صدر سے نکلے اور ان کی اسلام آباد اور راولپنڈی میں دو ملاقاتیں ہوئیں اور عمران خان کی جنرل باجوہ سے دوسری ملاقات ستمبر میں ہوئی۔


جنرل باجوہ صدر سے ہر ملاقات کے دوران صرف ایک ہی بات کرتے تھے‘ آپ عمران خان اور میاں شہباز شریف کو اکٹھا بٹھا دیں‘ تمام سیاسی مسائل کا حل صرف ان کی ملاقات سے نکلے گا‘ صدر نے سرتوڑ کوشش کی لیکن عمران خان نہیں مانے‘ جنرل باجوہ سے عمران خان کی دوسری ملاقات بھی ناکام ہو گئی۔

تاہم عمران خان پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی سیکنڈ ٹیئر لیڈر شپ میں ملاقات کے لیے راضی ہو گئے اور یوں ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی اسد قیصر اور پرویز خٹک کے ساتھ ملاقاتیں شروع ہو گئیں‘ ان ملاقاتوں میں بعدازاں اور لوگ بھی شامل ہو گئے اوریہ فارمولا طے ہو گیا‘ دسمبر میں حکومت مستعفی ہو جائے گی‘ میاں نواز شریف کے کیسز ختم ہو جائیں گے اور یہ واپس آئیں گے‘ چھ ماہ کی کیئر ٹیکر حکومت بنے گی‘ الیکشن جون میں ہوں گے۔


سکندر سلطان راجہ الیکشن کمشنر رہیں گے اور جنرل باجوہ الیکشن کے بعد ریٹائر ہوں گے‘ یہ فارمولا ’’وِن وِن سچویشن‘‘ تھی‘ میاں نواز شریف کے کیس ختم ہو رہے تھے‘ عمران خان کو الیکشن مل رہے تھے۔

الیکشن کمشنر کی عزت بحال ہو رہی تھی اور جنرل باجوہ کو آٹھ ماہ ایکسٹینشن دی جا رہی تھی لیکن اس دوران میاں نواز شریف اورجنرل باجوہ کے مشترکہ دوست شجاعت عظیم نے اپنی شبانہ محفل میں اس فارمولے کا ذکر کر دیا‘ یہ بات نکلی اور مختلف حلقوں میں ڈسکس ہونے لگی‘ یہ جنرل باجوہ کے کان تک پہنچی تو انھوں نے ملک محمد احمد کو فون کیا‘ ملک محمد احمد اس وقت ہیتھرو ایئرپورٹ سے باہر نکل رہے تھے۔

جنرل باجوہ نے ان سے کہا ’’میں ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتا‘ میں 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہا ہوں‘میں اس فارمولے میں نہیں ہوں‘‘ میاں نواز شریف نے بھی بعدازاں یہ فارمولا مسترد کر دیا‘ ان کا کہناتھا میری عزت بحال ہونی چاہیے۔

میں کسی لین دین کے ساتھ ملک واپس نہیں جانا چاہتا‘ دوسری طرف عمران خان کے ساتھیوں نے بھی انھیں سمجھایا‘ آپ نے اگر میاں نواز شریف کو رعایت دے دی تو آپ پر این آر او کا الزام لگ جائے گا اور یوں یہ فارمولا اور ایوان صدر کی دونوں ملاقاتیں ناکام ہو گئیں۔

میں نے جنرل باجوہ سے پوچھا ’’کیا آپ نے عمران خان کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے سے روکا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’یہ درست ہے میں نے عدم اعتماد کے بعد عمران خان کو میسج کیاتھا ‘ پرائم منسٹر آپ صرف ایک میچ ہارے ہیں‘ سیریزابھی باقی ہے۔

آپ اور حکومت میں صرف دو ووٹوں کا فرق ہے‘ آپ قومی اسمبلی سے استعفے دینے کی غلطی نہ کریں‘ یہ غلطی بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء نے کی تھی‘ حسینہ واجد نے اس کی پوری پارٹی تباہ کر دی تھی‘آپ اسمبلی میں رہیں‘ آپ کودوبارہ موقع مل جائے گا‘ عمران خان نے میرا میسج پڑھا لیکن جواب نہیں دیا اور یوں میرا ان سے رابطہ ختم ہو گیا۔

اس کے بعد ان سے اگست اور ستمبر میں دو ملاقاتیں ہوئیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے عمران خان کی حکومت کیوں گرائی؟‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’ہم نے ان کی حکومت نہیں گرائی‘ ہمارا جرم صرف یہ تھا ہم نے ان کی حکومت بچائی کیوں نہیں؟ عمران خان چاہتے تھے ہم آگے بڑھ کر ان کی حکومت بچائیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ یہ کر دیتے‘ آپ اس سے پہلے بھی تو یہ کرتے رہے تھے‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’میں اگراپنا فائدہ دیکھتا تو یہ میرے لیے سب سے زیادہ سوٹ ایبل تھا‘ میں عمران خان کو سپورٹ کرتا رہتا اور عزت کے ساتھ عمران خان سے فیئرویل لے کر ریٹائر ہو جاتا لیکن میں نے ملک کے لیے اپنے امیج کی قربانی دے دی۔

میں نے مشکل لیکن صحیح فیصلہ کیا‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ فیصلہ صحیح کیسے تھا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ہماری ریڈنگ تھی یہ لوگ ملک کے لیے خطرناک ہیں۔ یہ رہے تو ملک نہیں رہے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’مثلاً‘‘ یہ بولے ’’ مثلاً وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں سعودی کراؤن پرنس کو پنجابی میں … کہہ دیا‘ ان کے اپنے وزیر نے یہ بات لفظ بہ لفظ سعودی سفیر کو بتا دی اور سفیر مختلف لوگوں سے ان پنجابی الفاظ کا ترجمہ کرانے لگا‘ مثلاً ہم انھیں شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانے سے روکتے رہے۔

میں نے وزیراعظم سے کہا ‘سر یہ اپنابینک نہیں چلا سکا یہ اکانومی کا بھٹہ بٹھا دے گا لیکن یہ نہ مانے‘ شوکت ترین کے خلاف نیب میں آٹھ ارب روپے کی کرپشن کا کیس تھا‘ وزیراعظم نے الٹا ہم سے کہہ دیا آپ یہ کیس ختم کرائیں‘ ہم ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف میں پھنسے ہوئے تھے لہٰذا ہم مجبور ہو گئے اور یوں جنرل فیض حمید نے شوکت ترین کے نیب سے کیس ختم کرائے‘ مثلاً مجھے ایک شام گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا فون آیا‘ وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے‘ ان کا کہنا تھا شوکت ترین نے اکانومی کو بہت زیادہ ہیٹ اپ کر دیا ہے۔

ڈالر کے ریزروز تیزی سے نیچے آ رہے ہیں‘ ہمیں آپ کی انٹروینشن چاہیے یوں ہم وزیراعظم کے پاس جانے پر مجبور ہو گئے‘ حماد اظہر‘ اسد عمر‘ شوکت ترین اور رضا باقر بھی اس میٹنگ میں موجود تھے‘ میں نے وزیراعظم سے کہا‘ سر آپ 53 فیصد ٹیکس کسٹم سے جمع کر رہے ہیں‘یہ غلط ہے‘ ہم پھنس جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا یہ تو اچھی بات ہے‘ ٹیکس ریونیو بڑھ رہا ہے‘ میں نے کہا سر آپ ڈالر باہر بھجوا کر روپے جمع کر رہے ہیں‘ ملک اس طرح نہیں چل سکے گا‘ آپ شوکت ترین کو روکیں ورنہ ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے۔

رضا باقر نے تائید کی‘ وزیراعظم نے حامی بھر لی لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا‘ میٹنگ کے بعد اسد عمر نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ ہم غلط سائیڈ پر چل پڑے ہیں‘ آپ نے جو کام ہمیں آج بتائے ہیں یہ ہمیں گزرے ہوئے کل میں کر لینے چاہیے تھے‘‘ آپ اسد عمر سے پوچھ لیں‘ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں View attachment 915765View attachment 915766




Just imagine if PTI says

Pak army is threat to Pakistan(which is actually true) and it should cease to exist

Imagine the aghast and number of FIRs and kidnappings
General Bajwa turned patriot Pakistanis in to rebels and donkeys in to kings ..
He is a shameless general Pakistan has ever had even Musharraf (RIP)Sahib had admitted his faults.
 
Gern

General Bajwa turned patriot Pakistanis in to rebels and donkeys in to kings ..
He is a shameless general Pakistan has ever had even Musharraf (RIP)Sahib had admitted his faults.
Don't do this to yourselves. You have bought into a narrative that is blind to the other side's perspective.

Grant that Gen Bajwa is a thinking man. The easiest thing for him was to ride out the PTI term and retire into the sunset. Yet, there were important imperatives that were getting into the way of his peaceful retirement.

As is the case with everyone, this is not to suggest the Gen did not make mistakes, but so did Khan sahib with some that were costly to our country.
 
Don't do this to yourselves. You have bought into a narrative that is blind to the other side's perspective.

Grant that Gen Bajwa is a thinking man. The easiest thing for him was to ride out the PTI term and retire into the sunset. Yet, there were important imperatives that were getting into the way of his peaceful retirement.

As is the case with everyone, this is not to suggest the Gen did not make mistakes, but so did Khan sahib with some that were costly to our country.
Lol, whose mistakes were costly again? The solution to IKs mistakes are to bring the PDM?
 
If that is the case - IF - then magnifying the image with show IK doing the same on Gen Bajwa's right foot, while the others will be doing so on the left one. Zara ghaur sey dekho! :D
Yes explains perfectly why people protested when IK was removed and distributed sweets when Bajwa retired. Also perfectly explains why Bajwa wanted to get IK removed in first place.
 
Yes explains perfectly why people protested when IK was removed and distributed sweets when Bajwa retired. Also perfectly explains why Bajwa wanted to get IK removed in first place.

Yes, this is the same entire nation that distributes sweets when martial law comes and also when martial law goes. But only half of them distribute sweets when their preferred cult leader comes in and the other half distribute sweets when he goes. Clearly, the fauji experience is unifying for the country, both coming and going. :D
 
Don't do this to yourselves. You have bought into a narrative that is blind to the other side's perspective.

Grant that Gen Bajwa is a thinking man. The easiest thing for him was to ride out the PTI term and retire into the sunset. Yet, there were important imperatives that were getting into the way of his peaceful retirement.
You are assuming that he didn't have malicious intent at all, in fact he had good intent and put thought into it and simply made an error of judgement. Very out there.

None of the prevalent theories about the cause of Bajwa's actions allow for your assumption.

He can't ride IK's term and retire into the sunset if he's doing it at the behest of Americans aka regime change.
He can't ride IK's term and retire into the sunset if he's doing it to save PDM from the IK-Faiz combo.
He can't ride IK's term and retire into the sunset if he's doing it for monetary gains. As there's no reward for sitting by and retiring.
He can't ride IK's term and retire into the sunset if he's doing it because he wants Nawaz sharif to be pardoned and eligible for General Election come 2023 because of an alleged deal he made with him in exchange for NS's support for his extension in 2019.


As is the case with everyone, this is not to suggest the Gen did not make mistakes, but so did Khan sahib with some that were costly to our country.
Khan sahib was elected by and answerable to the citizen of this country. He is answerable to those who elected him for his actions, mistake or masterstrokes. I think minus the huge petrol subsidy near the end of his days, one can hardly critique IK's economic policy seeing what we have today. When someone suggests IK was removed to save the economy, that immediately shuts down the conversation, as you can understand.
 
Some missteps were costly,
what is the oath that these Pindi boises take when they become officers? And if they break their oath the are worse than the heera mandi ki rundi,
Also, it was the same begharats who tortured Mother of Natin Fatimah ali jannah, and the loser Field marshall use to call her kutti k bachi, lol same shit narrative was used back then

e Gen did not make mistakes
not his fking job to run the country. PERIOD
 

Latest posts

Back
Top Bottom