What's new

Urdu & Hindi Poetry

چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں
مجھ کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں...

میں تو یک مُشت اُسے سونپ دُوں سب کچھ, لیکن ایک مُٹّھی میں ، مِرے خواب کہاں آتے ہیں...

مُدّتوں بعد اُسے دیکھ کے، دِل بھر آیا
ورنہ ،صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں....

میری بے درد نِگاہوں میں، اگر بُھولے سے
نیند آئی بھی تو ، اب خواب کہاں آتے ہیں....

تنہا رہتا ہُوں میں دِن بھر ،بَھری دُنیا میں قتؔیل
دِن بُرے ہوں، تو پھر احباب کہاں آتے ہیں...

" قتیل شفائی "
 
IMG_7160.JPG
 
آج احسان دانش کی برسی ہے

شاعر مزدور احسان دانش

اردو ادب کی کوئی بھی صنف ہو ،عالمی ادبیات کی کوئی بھی جہت ہو اور معیارِ ادب کا کوئی بھی اسلوب ہو ،ہر جگہ اس لافانی ادیب کے افکار کا پر تو دکھائی دیتا ہے۔تفہیم ادب کا کوئی بھی عکس ہو اس کے خدو خال دل و نگاہ کو مسخر کر لیتے ہیں۔ احسان دانش ؒ ایک دبستانِ علم و ادب کا نام ہے وہ اردو ادب کے ایک درخشاں عہد کی نشانی ہیں-
احسان دانش کو اردو ادب میں ایک انتہائی معتبر بزرگ انشا پردازی اور شاعر ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی انشا پردازی کے بڑے دل کش نمونے ملتے ہیں وہ نظم کے ساتھ ساتھ نثر کے استعمال میں بھی الفاظ کے انتخاب میں بے مثال قرینہ رکھتے تھے۔ان کی نثر میں بھی شعریت محسوس ہوتی ہے۔ وہ ایک مزدور شاعرکے طور پر جانے جاتے ہیں ۔وہ بچپن سے ہی مزدوری کرنے لگے تھے۔’’جہان دانش‘‘ ان کی خود نوشت سوانح ہے جو محض ایک سوانح ہی نہیں بل کہ اس پورے عہد کی دل چسپ اور حقیقت سے لبریز ہے جو ہمیں ایک تاریخی کتاب سے بڑھ کر ناول لگی ہے ۔احسان دانش کی آپ بیتی ’’جہان دانش‘‘ ۱۹۷۳ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔احسان دانش جب اپنے سمت ماضی کا دریچہ کھولتے ہیں تو ان کے سامنے حادثات کے سینکڑوں آئینے وا ہوتے نظر آتے ہیںْ ’’جہان دانش‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں-
’’ ہر چند کہ آپ بیتی لکھنا آسان کام نہیں ،اس کے لیے تندرست تصور ،جیالہ حافظہ اور تازہ دم قوتِ تخلیق درکار ہے ۔جو ہر شخص کا حصہ نہیں ،آپ بیتی لکھنے والا انسان ،ناول نویس یا افسانہ نگار کی طرح ادب تخلیق نہیں کرتا بل کہ ان کے جادۂ فکر سے ہٹ کر گزری ہوئی صداقتوں کو عصر حاضر میں اس طرح رفو کرتا ہے کہ سیون دکھائی نہیں دیتی۔‘‘


دانش میں خوف مرگ سے مطلق ہوں بے نیاز

میں جانتا ہوں موت ہے سنت حضورؐ کی




1616419685937.png
 
1617052427505.png




یہ اردو کی دوسری جماعت کی کتاب ھے ,,,, ?? یہ کتاب کم و بیش 1990 سے 1996 تک گورنمٹ سکول کے سلیبس میں پڑھائی گئی ھے ,,, یہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور کی طرف سے پبلش کی گئی ھے ,, یہ اس کتاب کا پہلا سبق ھے
 
Muḥammad Ḥusain Āzād (c1834–1910) was a successful Urdu poet and a writer of vivid prose, particularly in his historical writing. He was born in Delhi, where his father, Muhammad Baqir, edited the first Urdu newspaper, Delhi Urdu Akhbar. Muhammad Baqir’s involvement in the Uprising of 1857 (also known as the Sepoy Rebellion) led to his execution by the British.

Āzād moved to Lahore several years later, where he taught Arabic at Government College and was subsequently professor of Urdu and Persian at Oriental College. The book discusses and promotes women's education.

Āzād claimed that he found the manuscript of this work in an old bag of his father’s, but the book appears to have been written by Āzād around the time of his move to Lahore.

Source: World Digital Library.


1618623172396.png

1618623215906.png
 
Meri Dastan e Hasrat
Sad Ghazal in Urdu
Andaz e bayan


 
عمر شریف
💞
💞
ہمارے ملک کا قیمتی سرمایہ.. انکے لئے کچھ تاثرات
😍
😍
😍
😍


سفر تو میں نے کیا تھا ورنہ سازوسامان اس کے تھے
میں توبس رازدار تھا اسکا ورنہ تو تمام راز اس کے تھے
یون تو بظاہر لوگوں مے میں نے رزق بانٹا تھا
لیکن درپردا سارے ہاتھ اس کے تھے
وہ دریا میے پیاسا بیٹھا تھا
جبکے سمندر تمام اسکے تھے
وہ دھوپ میں بیٹھا ھے چھاون دینے کو
جبکے درخت سارے سایہ دار اس کے تھے
مین نے کمال بلندی پے جاکے سوچا عمر
یہ تو سارے کمال اس کے تھیے
عمر شریف...


1619613731630.png
 

Back
Top Bottom