What's new

PTI | Imran Khan's Political Desk.

Exemplary Governance in KPK........


Without prejudice, fear or favour.

My father had a dream or call it a romantic notion.

He was in government service and used to think that on retiring from service he would return back to the village. So instead of investing in land in Peshawar , where we spent most of our childhood in Gulbahar colony, he bought land in the village.

In 1970, he bought a rather dilapidated house adjoining my grandfather's home for future needs of an extended family. Of course , his dream of going back to the village ,remained a dream. All 12 of his children now live on three different continents around the globe.

Some days back some louts broke down the boundary wall and declared it as their Qabza. A most emotive and distressing issue when it comes to ancestral inheritance. It is not uncommon for violence to take place. With great difficulty ,I restrained my cousin and his children to not create a ruckus and a tamasha.

Having cooled them down, I started scanning my friends in bureaucracy who I could approach to send in the police to evict the Qabza group.

But then I decided to test the the Baraks of Mr Imran Khan how he has depoliticized the police and how it is more accessible to public.
I went to this digital complaint cell and made an official complaint. This cell without too much delay responded and acknowledged receiving my complaint.

A day later they called in the disputing parties to a police station and resolved the issue. Of course we got our property back and the Qabza group made to look like idiots.

In any other time, this would have involved tens of visits to patwarkhana, Hujras, Jirga etc.

So well done KPK police.

Now it is not a signature visible project or a fancy flyover but a change in attitude towards public service. I hope they carry on like this.


Note:- This is first hand post and author is known to me.
 
Visited 3 different valleys for potential tourist resorts. Morra valley in Elahi & Choor in Palas Tehsil are most beautiful spots on this earth. By opening new resorts, pressure will be off existing resorts & employment opportunities will be created for local people :: Imran Khan.

20842218_10155083592679527_4116061704498615961_n.jpg


20883013_10155083592669527_3613057819535256636_n.jpg


20800154_10155083592769527_4234014780197831066_n.jpg


20882953_10155083593079527_7056233753198378530_n.jpg


20953276_10155083593099527_9187371205183427262_n.jpg


20840709_10155083593249527_1426445630130557111_n.jpg


20882626_10155083593264527_6491427371678221906_n.jpg


20800256_10155083593479527_7473840268973397179_n.jpg


20840817_10155083591194527_3393611463223722352_n.jpg

__
 
Imran Khan Press Conference | 27 August 2017

 
عدلیہ پرمقدمات کابوجھ کم
قانون کی بالادستی کی ضمانت کیسے ممکن ہے؟
اس ضمانت کا واحد راستہ عدلیہ ہے کیونکہ عدلیہ نظام کا طاقتور بازو ہے جو جارح اور قانون شکن کا گریبان پکڑ کر اسے اس کی حدود یاد دلاتا ہے تاکہ بقیہ افراد قانون کے زیر سایہ زندگی بسر کر سکیں ‘اسی بناء عدلیہ کی طاقت اور اس کا اختیار ایک بنیادی چیز ہے تاہم یہ طاقت و اختیارات ایسے ہوں کہ اس سے عوام کا اعتماد حاصل کیا جا سکے۔ جہاں کہیں بھی عدالت ہے اور اس سے لو گ، خواہ بہت کم تعداد میں رجوع کرتے ہیں، اس عدالت کا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ عوام کی معتمد علیہ ہو سب کو یہ یقین و اطمینان حاصل ہو جائے کہ عدلیہ کا یہ یونٹ جو یہاں موجود ہے قانون اور انصاف کے مطابق ہی فیصلہ کرتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمیشہ کچھ افراد عدلیہ سے ناراض رہتے ہیں‘قرآن کہتا ہے کہ وہ لوگ جن معاملات میں فیصلے پیغمبر سے کرواتے ہیں اگر ان میں فیصلہ ان کے حق میں ہو ں تو قبول کرتے ہیں اور اگر فیصلہ دوسرے فریق کے حق میں ہو تو اعتراض کرتے ہیں، کچھ سننے کو تیار نہیں ہوتے ‘یہ چیز ہمیشہ دیکھنے میں آتی ہے لیکن معاشرے میں اگر عدلیہ پوری سنجیدگی کے ساتھ قانون اور اپنے فرائض پر عمل کرتی ہے، کسی سے کوئی رو رعایت نہیں کرتی، قانون شکنی سے سختی سے نمٹتی ہے اور خاص طور پر اگر قانون شکن کا تعلق خود عدلیہ کے شعبے سے ہو تو اور زیادہ سختی سے پیش آتی ہے، اس عدلیہ کو دیکھ کر عوام مطمئن رہتے ہیں۔ یہ ہدف حاصل کرنا چاہئے، اس منزل تک رسائی حاصل کرنا چاہئے۔ البتہ اس کے لئے بڑی تدبیروں کی ضرورت ہے۔ سارے امور واضح اور معین ہوں، عدلیہ کے اعلیٰ عہدہ داروں کے لئے ہر لمحے کی اطلاعات حاصل کرنے کا چست و درست انتظام ہو، عدلیہ کی کارکردگی پر مکمل نظارت۔ سب سے بڑھ کر عدلیہ کی کارکردگی کا طے شدہ منصوبے اور نظام کے تحت انجام پانا ہے۔ ہر فیصلے کے کچھ حامی اور کچھ مخالف ہوتے ہیں‘ فیصلے سے ناراض افراد دو طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیں جو کچھ سماجی اصول و ضوابط کے پابند ہوتے ہیں یعنی اگرچہ فیصلے سے ناخوش ہیں لیکن یہ نہیں کرتے کہ جج کو پھاڑ کھانے کو دوڑیں۔ بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو کسی اصول و ضابطے پر توجہ نہیں دیتے۔ جج جس نے شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے اور جو لائق قدردانی ہے اس پر حملہ کر دیتے ہیں اور مجرم کا دفاع کرتے ہیں جس کا جرم ثابت ہو گیا ہے۔ مجرم کا دفاع جرم ہے‘ جس مجرم کو قانون کی رو سے سزا مل چکی ہے اس کا دفاع در حقیقت قانون کو چیلنج کرنے سے عبارت ہے۔ لوگوں کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ جج کو آزادانہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اسے کسی کے دباؤ میں نہیں آنا چاہئے۔ کسی ایک شخص کے ٹیلی فون اور حکم پر فیصلہ نہیں کیا جاتا، فیصلہ علم، دلیل اور ضمیر کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ جج پر مختلف انداز سے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اخبار کی سرخیوں کے ذریعے، سیاسی حربے اختیار کرکے اور منفی ماحول تیار کرکے۔ جج کو چاہئے کہ وہ ہرگز ان چیزوں سے متاثر نہ ہو، عدالتی سسٹم اور محترم جج صاحبان کو ہرگز ان افراد کے غیر منطقی حربوں کے دباؤ میں نہیں آنا چاہئے‘ جو عدلیہ کے خلاف ماحول بنا کر اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف خود ان افراد کو یہ جان لینا چاہئے کہ وہ غیر قانونی کام کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کچھ غیر قانونی کاموں کو ملک کے حکام ممکن ہے نظر انداز کر دیں لیکن اس صورت میں نہیں جب اسی کو وتیرہ بنا لیا جائے۔ پاکستان میں عدلیہ پرنظرڈالی جائے توہمارے معاشرے میں عدالتی نظام کچھ زیادہ متاثرکن نہیں ‘چھوٹے سے مسئلے کے لئے عدالت سے رجوع کیاجائے تواس مسئلے کے حل میں سالوں سال لگ جاتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ دیگراداروں کے بہترطورپرکام نہ کرنے کی بناء پرعدلیہ پرمقدمات کارش بڑھتاہی جارہا ہے جبکہ دوسری جانب ان مقدمات کے نمٹانے کی شرح انتہائی کم دکھائی دیتی ہے اورزیرالتواء مقدمات کی تعداد میں روزافزوں اضافہ ہی ہوتاجارہا ہے اوریہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخواحکومت نے عدلیہ پرمقدمات کابوجھ کم کرنے کے لئے چھوٹے تنازعات کے مقامی سطح پر حل کے لئے تھانوں کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں قائم کیں تاکہ معمولی نوعیت کے اورچھوٹے تنازعات کو حل کرنے کے لئے ان کمیٹیوں سے رجوع کیاجائے اوراس طرح نہ صرف مقامی سطح پرفریقین کی مرضی کے مطابق یہ تنازعات حل ہوجاتے ہیں بلکہ عدلیہ سے رجوع کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اوران کمیٹیوں کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیاگیاجس کے خاطرخواہ نتائج سامنے آئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں صوبہ بھر میں تنازعات کے حل کی قائم کونسلوں نے پچھلے ایک سال کے دوران لوگوں کے مابین 7179 تنازعات خوش اسلوبی سے پُر امن طور پر حل کر لئے ہیں جبکہ1465 تنازعات قانونی کارہ جوئی کے لیے متعلقہ فورم کو بھیجوادیئے ہیں۔سال 2014ء میں عام لوگوں کے چھوٹے چھوٹے تنازعات کا خوش اسلوبی سے مستقل حل نکالنے کے لئے پشاور کی سطح پر کونسل قائم کی گی۔ اس کی حوصلہ افزاء کامیابیاں اور تنازعات کے حل کے اس نظام میں عوام کی بڑھتی ہوئی اعتماد کی وجہ سے بعد ازاں اس کا دائرہ پورے صوبے تک بڑھادیا گیا۔اور آج صوبے کے تمام اضلاع میں تنازعات کے حل کی کونسلیں قائم ہیں اور عوام زیادہ تعداد میں اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل وتنازعات کے حل کے لئے ان کونسلوں سے رجوع کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ اسٹار کرکٹر سپن باؤلر یاسر شاہ بھی صوابی میں تنازعات کے حل کی کونسل کے ممبر ہیں۔کونسل برائے تنازعات کے حل کے قیام کا نبیادی مقصد عام آدمی کوفوری اور مفت انصاف دلانا ہے اور معاشرے کے مختلف افراد کے مابین ہونے والے چھوٹے چھوٹے جھگڑوں؍تنازعات کا ایسا پُرامن حل تلاش کرنا ہے کہ سرے سے جرم ہی نہیں ہوا ہو۔ معاشرے میں امن و آشتی، باہمی ہم آہنگی اور بھائی چارے کے جذبے کو فروغ حاصل ہو اور دوسری طرف عوام بالخصو ص غریب اور بے بس لوگ تھانوں اور کچہریوں کے چکروں اور جھنجھٹ سے چھٹکارہ حاصل کرکے اپنی صلاحتیں اور وسائل مثبت اور تعمیری کاموں پر لگا کر معاشرے کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ کونسل برائے تنازعات کے حل کا منشور قران وسنت کی روشنی میں تشکیل دیا گیا ہے۔ جوکہ سورۃ الحجرات کی تعلیمات یعنی ’’صلح میں بھلائی ہے‘‘ سے ماخوذ ہے۔ ان کونسلوں میں پورے صوبے میں ایک سال کے دوران 10386 تنازعات کی شکایات موصول ہوئیں جن میں سے7179 تنازعات خوش اسلوبی سے پُر امن طریقے سے حل کرلئے گئے۔ 1465تنازعات قانونی چارہ جوئی کے لئے متعلقہ فورم کوبھجوادیئے گئے جبکہ 1742 تنازعات کی شکایات پر کاروائی جاری ہے۔ ان کونسلوں نے پشاور میں 1308، مردان میں561 ،نوشہرہ میں235، چارسدہ میں251، صوابی میں 1133، کوہاٹ میں778، کرک میں301،ہنگو میں659،لکی مروت میں 224،ٹانک میں 16، سوات میں 261، بونیر میں 150 ، اپر دیر میں73،لوئر دیر 148،چترال میں 421، شانگلہ میں 40 ، تورغر 18،کوہستان میں 3، ایبٹ آباد میں 107 ، مانسہرہ میں 127بٹ گرام میں4 2، ڈی آئی خان 142اوربنوں میں199 تنازعات خوش اسلوبی سے پرامن طور پر حل کرلئے ہیں۔تنازعات کے حل کے لئے بنائی گئی کونسل کی ذمہ داریوں میں تنازعات کا پُر امن حل، حقائق جاننے کے لئے تحقیق ( انکوائری) کرنا اورکی گئی تفتیش میں بطور جیوری کام کرنا ہے۔واضح رہے کہ موجودہ صوبائی حکومت نے تنازعات کے حل کی کونسلوں کے کردار اور کارکردگی پر بھر پور اطمینان کا اظہار کیا ہے اور ان کو نسلوں کو لوگوں کو مفت اور فوری انصاف کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ قرار دے رہی ہے۔ صوبائی حکومت کی ہدایت پر صوبے کے کونے کونے بالخصوص دیہاتی علاقوں میں زیادہ تعداد میں اس قسم کی کونسلیں قائم کی گئی ہیں تاکہ غریب اور پسے ہوئے طبقے کو اُن کی دہلیز پر فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس وقت پشاور میں دو، مردان، نوشہرہ، صوابی اور سوات میں 4،4 ، چارسدہ میں تین اور صوبے کے باقی اضلاع میں ایک ، ایک تنازعات کے حل کی کونسلیں عوام کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ان کونسلوں پر عوام کے اعتماد اور کامیابیوں کے مدنظر تنازعات کے حل کے کونسلوں کو صوبہ بھر میں سب ڈویژنل سطح پر مرحلہ وار قائم کرنے کی حکمت عملی وضع کی جارہی ہے جو کہ عوام کو ان کی دہلیز پر ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنے میں سنگ میل ثابت ہوگا۔
http://www.dailyaaj.com.pk/story/42303


----------------------------------------------
education for prisoners

 
KPK Government decides to merge religious seminaries with education board


 

Latest posts

Back
Top Bottom