What's new

No country for brave men

Solomon, every nation,country and people harbor sensitivities about some issue, and find it extremely agitating when someone tries to meddle with it.In your case, it is the Holocaust, in Pakistan's case it's religion. The Holocaust law is there, because a lot of people are sensitive about it and to protect their feelings, a law has been placed to avoid any chaos, for the greater good of the society. Similarly, a lot of people are sensitive about religion in Pakistan so to avoid any complications, and for the greater good of the society, the blasphemy law is there.

Thanks for pointing out the hypocricy of Islamophobe Zionist agent provocateurs like Solomon2 lecturing us about tolerance. Many of us who are familiar with his anti-Pakistan, anti-Islam rants routinely ignore him.

Coming to topic, many countries, including Western countries, have laws against racial and religious vilification, so Pakistan's blasphemy law is not that unusual. What needs to change is repeal of the death penalty clause, and introduction of much tighter evidentiary requirements.

As many people have pointed out, law enforcement in Pakistan is woefully inadequate and all laws are abused. That is our greatest challenge. Once we fix law enforcement, the blasphemy law will not be an issue any more.
 
lol @ Brave Men = Salman Taseer

Thanks for pointing out the hypocricy of Islamophobe Zionist agent provocateurs like Solomon2 lecturing us about tolerance. Many of us who are familiar with his anti-Pakistan, anti-Islam rants routinely ignore him.

Coming to topic, many countries, including Western countries, have laws against racial and religious vilification, so Pakistan's blasphemy law is not that unusual. What needs to change is repeal of the death penalty clause, and introduction of much tighter evidentiary requirements.

As many people have pointed out, law enforcement in Pakistan is woefully inadequate and all laws are abused. That is our greatest challenge. Once we fix law enforcement, the blasphemy law will not be an issue any more.

So its means Pakistan shouldn't have any Law at all, if some body murder a person then shouldn't be hanged for what he did, the rappers should remain in careless environment as these laws can be abuse.

Problem is not the Law but the system which actually implements the law, and Salman Taseer was a part of same system.
 
Last edited:
Solomon, I am finding it awfully difficult to keep my civility intact while having a debate with you, and I am not really sure why. Is it because of your condescending tone -
It's because I'm making an effort. If I stick a pin in you and that makes you stand up, I'm succeeding. I guess I'm doing this because I knew some Pakistani diplomats back in 1971 and I remember their feelings and dilemmas. They dithered, waited too long to act, and hundreds of thousands died as a result. (They did feel responsible for not acting sooner.)

I don't want to see that happen again. If you get annoyed with me, but are nonetheless stirred up enough to act and maybe work to prevent more bloodbaths and create a happier Pakistan - well, your irritation with me is a very small thing by comparison, isn't it?
 
i just have to make one point , doesn't all of this takes our mind back to Christan dark ages i mean nearly all our "Faith" related incidents and trends are mimicking Christianities darkest period and the struggle of illogical church and common man"?? .....so good to be in a "qila of islam" then ...!!

i have thought this.

but the christians never had outside interference, or external pressures like pakistan does.
 


اس کرہِ ارض کی آبادی چھ ارب نوے کروڑ ہے۔اس میں ایک ارب ستاون کروڑ مسلمان ہیں۔ یعنی دنیا کے ہر چوتھے شخص کی وابستگی اسلام سے ہے۔ باون ممالک اور خطوں میں اکثریتی آبادی مسلمان ہے۔ اس دنیا کے تریپن فیصد مسلمان پندرہ ممالک میں بستے ہیں۔

(ایک)

انڈونیشیا کی پچیس کروڑ آبادی میں سے چھیاسی فیصد کلمہ گو ہیں۔انیس سو پچھتر میں قائم ہونے والی انڈونیشین علما کونسل شرعی قوانین کے نفاز میں حکومت کی رہنمائی کرتی ہے۔دو ہزار چھ میں انڈونیشیا میں چھ مذاہب کو سرکاری عقیدہ تسلیم کیا گیا۔اسلام ، کیتھولک ازم، پروٹسٹنٹ ازم ، بدھ ازم ، ہندو ازم اور کنفیوشس ازم۔انڈونیشیا کے پینل کوڈ کے آرٹیکل ایک سو چھپن اے کے تحت توہینِ مذہب اور مذہبی منافرت پھیلانے کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس قید ہے۔

( دو)

ملیشیا میں ستر فیصد آبادی مسلمان ہے
انڈونیشیا کے ہمسایہ ملک ملیشیا میں ستر فیصد آبادی مسلمان ہے۔سیکولر عدالتوں کے ساتھ ساتھ شرعی عدالتی نظام بھی کام کرتا ہے۔ملیشین وفاق میں شامل کئی ریاستوں میں قانون سازی کا ماخذ شریعت ہے۔وفاقی پینل کوڈ کے آرٹیکل دو سو پچانوے اور دو سو اٹھانوے اے کے تحت توہینِ مذہب کی زیادہ سے زیادہ سزا تین سال قید اور ایک ہزار امریکی ڈالر کے مساوی جرمانہ ہے۔

(تین)

ملیشیا سے ذرا پرے آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا مسلمان ملک بنگلہ دیش ہے۔پندرہ کروڑ میں سے تراسی فیصد آبادی کلمہ گو ہے۔انیس سو ترانوے میں جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش نے ایک قانونی بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جس کے تحت پاکستان کی طرز پر توہینِ قرآن و رسول پر عمر قید اور سزائے موت تجویز کی گئی۔لیکن یہ بل مسترد ہوگیا۔اس وقت بنگلہ دیشی پینل کوڈ کے آرٹیکل دو سو پچانوے اے کے تحت توہینِ مذہب پر پانچ برس تک قید اور جرمانے کی سزا ہے۔

( چار)

افغانستان کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ سن دو ہزار چار میں نافذ ہونے والے آئین کے تحت عدالتیں جرم کی سنگینی کے حساب سے توہینِ مذہب پر سزائے موت تک دے سکتی ہیں۔لیکن اگر مجرم سزا سنائے جانے کے تین روز کے اندر اظہارِ پشیمانی کرے تو سزا ساقط بھی ہوسکتی ہے۔

( پانچ)

ایران میں ننانوے فیصد مسلمان ہیں
ایران کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے اور ملکی قوانین کا ماخذ فقہِ جعفریہ ہے۔ایرانی پینل کوڈ میں توہینِ مذہب کے لئے علیحدہ سے کوئی شق نہیں بلکہ اسلامی حکومت کی مخالفت ، توہینِ مذہب اور اکثریتی عقیدے سے متصادم مواد کی اشاعت پر سزاؤں کو ایک ہی خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ان میں سے کسی جرم پر بھی اس کی سنگینی کے اعتبار سے سزائے موت تک دی جاسکتی ہے۔

(چھ)

سعودی عرب کی لگ بھگ سو فیصد آبادی مسلمان ہے۔سعودی پینل کوڈ حنبلی مکتبہِ فکر کے تحت بنائے گئے شرعی قوانین ، فتاوی اور شاہی فرمانوں اور ان کے تحت وقتاً فوقتاً بنائے جانے والے ذیلی ضوابط کا مجموعہ ہے۔توہینِ مذہب حدود کے دائرے میں آتا ہے۔ جرم کی سنگینی کے اعتبار سے جرمانے ، کوڑوں ، قید یا موت کی سزا دی جاسکتی ہے۔ بادشاہ پشیمانی ظاہر کرنے پر مجرم کو معاف بھی کرسکتا ہے۔

(سات)


سعودی ہمسائے یمن کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔اسلام سرکاری مذہب ہے۔توہینِ مذہب کے مقدمات کا فیصلہ شرعی قوانین کے تحت کیا جاتا ہے اور جرم کی سنگینی کے اعتبار سے کوڑوں اور قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔

( آٹھ)

متحدہ عرب امارات کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ تمام سرکاری و نجی سکولوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم لازمی ہے۔توہینِ مذہب پر جرم کی نوعیت کے اعتبار سے جرمانے یا قید کی سزا ہوسکتی ہے۔لیکن انیس سو ترانوے میں وفاقی سپریم کورٹ کی دی گئی رولنگ کے مطابق شرعی سزاؤں کا اطلاق غیر مسلمانوں پر نہیں ہوگا۔

( نو)

کویت میں قانون سازی کا منبع شریعت ہے۔ لیکن توہینِ مذہب کا معاملہ انیس سو اکسٹھ کے پریس اینڈ پبلیکشنز لا کا حصہ ہے۔ کوئی بھی تحریر و تقریر جس سے مذہب یا مقدس شخصیات کی اہانت کا پہلو نکلتا ہو اس پر جرمانے یا قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

( دس)

اردن کی پچانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اسلام سرکاری مذہب ہے۔ توہینِ مذہب کے قانون کے تحت تین برس تک قید اور جرمانے کی سزا ہے۔

( گیارہ)

ترکی کی ساڑھے سات کروڑ کی آبادی میں پچاسی فیصد مسلمان ہیں۔ ملک پر پچھلے دو ادوار سے اسلام پسند جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ توہینِ مذہب کے لئے علیحدہ سے کوئی قانون نہیں ہے۔ البتہ ترک پینل کوڈ میں دو ہزار پانچ میں شامل کئے گئے آرٹیکل تین سو ایک کے تحت ترک قوم اور اس کی اقدار، ریاست، پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج کی ہتک پر چھ ماہ سے دو برس تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔

( بارہ)

مصر کی نوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ سرکاری مذہب اسلام ہے۔ تمام نجی و سرکاری سکولوں میں اسلامک سٹڈیز لازمی مضمون ہے۔ ہر مصری شہری کے شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ بھی ہے۔ جامعہ الازہر کی اسلامک ریسرچ کونسل مذہبی امور پر حکومت کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس کونسل کی اجازت کے بغیر کوئی بھی مذہبی کتاب شائع نہیں ہوسکتی۔ سن دو ہزار چھ میں بننے والے توہینِ مذہب کے قانون کے تحت چھ ماہ تا پانچ برس قید اور ایک ہزار پاؤنڈ جرمانے تک سزا ہوسکتی ہے۔

( تیرہ)

لجزائر کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اسلام سرکاری مذہب ہے۔ انیس سو نوے کے ایک قانون کے تحت وزارتِ مذہبی امور ایسی کسی بھی شے کی اشاعت کو روک سکتی ہے جس سے توہین مذہب کا پہلو نکلتا ہو۔ پینل کوڈ کے تحت مذہبی اہانت پر دو سال تک قید اور پانچ لاکھ دینار تک سزا ہے۔

( چودہ)

نائجیریا کی ساڑھے بارہ کروڑ آبادی میں پچھتر فیصد مسلمان ہیں۔ ملک کے مسلم اکثریتی علاقوں میں شرعی و سیکولر عدالتی نظام کام کرتا ہے۔ پینل کوڈ کی شق دو سو چار کے تحت توہینِ مذہب کی سزا دو برس تک ہے۔

( پندرہ )

محمد علی جناح سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک کسی کو بھی خیال نہیں آیا کہ یہ دفعات ناکافی ہیں۔اگر خیال آیا تو تیسرے فوجی آمر ضیا الحق کو۔ جس نے دفعہ دو سو پچانوے اور دو سو پچانوے اے کے ہوتے ہوئے بھی دو سو پچانوے بی کا اضافہ کیا جس کے تحت قرانِ کریم کی براہ راست یا بلا واسطہ یا اشاروں یا کنایوں میں توہین کی سزا عمر قید رکھی۔
سوڈان کی چار کروڑ تیس لاکھ آبادی میں ستر فیصد مسلمان ہیں۔کرمنل ایکٹ کے سیکشن ایک سو پچیس کے تحت توہینِ مذہب کے مجرم کو جج جرم کی نوعیت دیکھتے ہوئے جرمانے ، قید یا چالیس کوڑوں کی سزا دے سکتا ہے۔
پاکستان کی سترہ کروڑ آبادی میں مسلمان ستانوے فیصد ہیں۔ پاکستان کے پینل کوڈ کی دفعہ ایک سو تریپن اے کے تحت توہینِ مذہب اور مذہبی منافرت پھیلانے کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس قید ہے۔ دفعہ دو سو پچانوے کے تحت مذہبی عبادت گاہوں کی بے حرمتی اور توڑ پھوڑ قابلِ تعزیر جرم ہے۔ جبکہ دفعہ دو سو پچانوے اے کے تحت زبان یا قلم سے مذہبی جذبات مجروح کرنے پر قید ، جرمانے یا اشاعت شدہ مواد کی ضبطی ہوسکتی ہے۔ اس دفعہ کے تحت قرآن سمیت تمام الہامی کتابیں اور رسولِ اکرم سمیت تمام انبیا کی توہین کا احاطہ ہوتا ہے۔
تیس برس تک چار گورنر جنرل ، چار فوجی و غیر فوجی صدور اور آٹھ وزرائے اعظم اور تمام دینی و سیاسی جماعتیں انہی تین دفعات کو احترامِ مذہب کے لئے کافی سمجھتے رہے۔ محمد علی جناح سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک کسی کو بھی خیال نہیں آیا کہ یہ دفعات ناکافی ہیں۔اگر خیال آیا تو تیسرے فوجی آمر ضیا الحق کو۔ جس نے دفعہ دو سو پچانوے اور دو سو پچانوے اے کے ہوتے ہوئے بھی دو سو پچانوے بی کا اضافہ کیا جس کے تحت قرانِ کریم کی براہ راست یا بلا واسطہ یا اشاروں یا کنایوں میں توہین کی سزا عمر قید رکھی۔ (تورات ، زبور اور انجیل سمیت کسی اورالہامی کتاب یا صحیفےپر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا)۔ جبکہ دفعہ دو سو پچانوے سی کے تحت رسولِ اکرم کی براہ راست یا بلا واسطہ یا اشاروں یا کنایوں میں توہین کی کم ازکم سزا موت رکھی۔( اس دفعہ کے دائرے میں دیگر انبیائے کرام نہیں آتے)۔

ضیاالحق کے دور میں ملک میں کلاشنکوف اور ہیروئین کی بیماریاں پھیلیں
یوں ضیا الحق نے پاکستان کو دنیا کا واحد مسلمان ملک بنا دیا جہاں توہینِ مذہب کا قانون پہلے سے نافذ ہوتے ہوئے بھی الہامی کتابوں اور انبیائے کرام کی توہین کو نئی درجہ بندی میں بانٹ دیا گیا اور شاہ خالد بن عبدالعزیز کے مشیر ڈاکٹر معروف دوالبی ، شریف الدین پیرزادہ ، اے کے بروہی ، ڈاکٹر تنزیل الرحمان ، جسٹس افضل چیمہ اور مولانا ظفر احمد انصاری وغیرہ کی رہنمائی میں مرتب کردہ حدود اور توہینِ مذہب کے قوانین کے مسودات کو الہامی دستاویزات کے مساوی سمجھ لیا گیا۔
چنانچہ ضیا الحق کے بعد آنے والی جس حکومت نے بھی اس قانون کے انتقامی استعمال کو روکنے کے لئے ترمیم کی بات کی اسے شریعت دشمن قرار دیا گیا۔ترمیم تو کجا اس قانون کے تحت ہونے والی زیادتیوں کی جانب اشارہ بھی گناہِ کبیرہ اور لائقِ قتل قرار پایا۔زیریں عدالتیں ہجوم کے دباؤ میں آتی چلی گئیں۔اور مقدمے کے دوران یا با عزت بری ہونے کی صورت میں بھی ملزموں کو یا تو قتل ہونا پڑا ، یا چھپنا پڑا یا ملک چھوڑنا پڑا۔
سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان میں اکتیس برس سے نافذ توہینِ مذہب کا قانونی مسودہ واقعی الہامی حیثیت رکھتا ہے تو پھر سعودی عرب اور ایران سمیت دنیا کا کوئی اور مسلمان ملک اب تک اسے اپنا ماڈل نا بنا کر اسکے فیوض و برکات سے کیوں محروم ہے۔
تو کیا پاکستان کے علاوہ باقی مسلمان ممالک اور حکومتوں کا عقیدہ کمزور یا گمراہ ہے یا وہ اسلام کی اس تشریح کو سمجھنے سے قاصر ہیں جسے پاکستانی مسلمانوں کا ایک طبقہ درست سمجھتا ہے۔
پاکستان میں دنیا کی کل مسلمان آبادی کا صرف گیارہ فیصد بستا ہے۔اس گیارہ فیصد میں ایسے کیا سرخاب کے پر لگے ہیں جو انڈونیشیا ، بنگلہ دیش اور نائجیریا کو بھی نصیب نہیں۔ حلانکہ ان تین ممالک میں مجموعی طور پر ساڑھے باون کروڑ مسلمان رہ رہے ہیں۔

کاش انہیں بھی کوئی ضیا نصیب ہو جائے ۔کاش ان کی بھی زندگی اور آخرت سنور جائے

۔
?BBC Urdu? - ????????? - ???? ????? ??? ?? ???? !?
 
Bhatti deplores move to make Qadri ‘hero’

ISLAMABAD: Terming the assassination of the governor an act to sabotage peace in the country, Federal Minister for Minorities Affairs Shahbaz Bhatti said the killer wanted to disturb peace of the country and interfaith harmony as Taseer always tried to protect the minories rights.

Addressing a congregation at Fatima Church, Bhatti requested all liberal and progressive and political forces to come forward and join hands to eradicate all forces that wanted to harm peace and democratic process in the country. Federal minister said the governor was against the misuse of blasphemy laws implemented in the country. Bhatti said the extremist elements wanted to destabilize Pakistan by creating anarchy in the country. He said Taseer was a liberal and progressive leader of Pakistan People’s Party (PPP). “Militancy has creped into every segment of society, whether they are police or army or bureaucracy, this intolerance has become a disease in our society,” he said. staff report

Daily Times - Leading News Resource of Pakistan
 
Coming back to the topic, here is a short video of Javed Ghamdi, a religious scholar from Pakistan, fleeing for his life to Dubai because of the threats posed by the religious fundamentalists.
Here is what he says in an interview recorded shortly after Taseer's murder. A few points:
1) Ghamdi had to flee Pakistan because of an ethical issue: Not only he was being threatened but even his neighbors were under threat because of his residence in Pakistan.
2) The evolution of Islamic discourse, particularly in the sub-continent, is too much based upon 'emotions'. Emotions permeate everything when it comes to Islam. People are openly called to 'love' faith without reasoning. And 'love' can often lead to 'Junoon' (fanaticism). [Marvelous insight about the sub-continental Muslims!]
3) What people are able to say today will be even harder to say tomorrow inside Pakistan.
4) A counter-strategy should be a full-force response of re-education.
5) Today we may be silenced by the mob but tomorrow, as a reaction to the religious mob's brutality, some kind of violent reaction will arise against them.


YouTube - Religious Extremism & Why Ghamdi Left Pakistan
OMG...Gamdi left Pakistan....i missed this guy and his program.....he is great scholar and follower of Iqbal....
 
Bilawal calls Qadri, supporters real blasphemers

Wednesday, January 12, 2011

By Murtaza Ali Shah

LONDON: Pakistan People’s Party (PPP) Chairman Bilawal Bhutto Zardari turned fire on the supporters of Mumtaz Qadri, the elite policeman who assassinated Salman Taseer on 4th December in a posh market in Islamabad, and called them “the real blasphemers.”

Salman Taseer was killed after he was wrongly accused of committing blasphemy when he had only proposed reforms to the blasphemy law and expressed support for Aasia Bibi, the Christian woman who is alleged to have committed blasphemy.

Addressing a packed memorial service for the murdered Punjab governor at the High Commission of Pakistan here, Bilawal condemned the religious right for glorifying the murder of Salman Taseer and showering rose petals on the hate-filled policeman who is believed to have ties with an extremist Islamist group.

Addressing directly the supporters of Mumtaz Qadri, Bilawal said: “You, along with the killers of Shaheed Salman Taseer, are the real blasphemers. Because of you, the message of Islam is distorted in the eyes of the world.”

Mourners, including Labour and Conservative MPs, PPP activists and leading members of the Pakistani Christian community came to offer prayers from all parts of Britain. Bilawal quoted a saying of Hazrat Muhammad (Peace be upon him) in which the last Prophet expressed solidarity with minorities and had vowed to fight on their behalf “on the day of judgement.”

Comparing the assassination of Taseer with his own mother Benazir Bhutto three years ago, Bilawal said that the bravery of Salman Taseer would “never be forgotten” as the liberal politician died “defending the message of Islam, died defending the words and actions of our beloved Prophet (PBUH)” and those who killed him “in fact bring disrepute to Islam by allowing usurpation of people’s rights.”

Through his speech at the High Commission in London, Bilawal has become the only person from the PPP to condemn in strongest terms the killer of Taseer. PPP has been widely criticised for abandoning - in the face of fire-spouting opposition and death threats from extremist religious leaders - not only Salman Taseer but also Sherry Rehman whose life is under danger. PPP has done nothing so far to take legal action against those who put fatwa on Taseer’s first and now on Sherry Rehman.

On the contrary Rehman Malik, the Interior Minister, bewildered the world when he said he will take law into his own hands and will kill the blasphemers. Bilawal called Taseer “the real lion of Punjab” and “one of the few heroic politicians left in the ever-depleting pool of brave Pakistani politicians.”

He branded the extremist followers of religious parties as “evil masqueraders as people of faith terrorising all those who oppose or disagree with them” and said through the killing of Salman Taseer the dark forces of extremism and bigotry wanted to send a message was being sent to all those who believed in the peaceful teachings of the Prophet (PBUH), in democracy and humanity that they will devour Pakistan.

But the Oxford student refused to bow down and be silenced by fear and called for unity to resurrect Muhammad Ali Jinnah’s Pakistan. To those who have asked others not to pray for Salman Taseer, Bilawal called suppressors of religious freedom who have committed grave crimes against Islam and they must be defeated.

He strongly came out in defence of “Christian and other minority communities in Pakistan. “We will defend you. Those who wish to harm you for a crime you didn’t commit will have to go through me first,” he told in his emotional address.

Echoing the words he spoke following his mother’s death and which he often repeats, Bilawal said: “Democracy is always the best revenge.”He challenged the religious parties that it was easy to bring out people in the name of Islam on the streets but “they have never and will never enjoy the electoral support of the people of Pakistan.”

Others who spoke on the occasion included Pakistan’s High Commissioner to the UK Wajid Shamsul Hasan, Christian leader and academic Councillor James Sherra, MPs Sir Gerald Kaufman, Sadiq Khan, Rehman Chishti, Anas Sarwar, Emma Reynolds, Mike Gibbs, PPP MNA Syed Nasir Ali Shah, and PPP UK President Syed Hasan Bukhari.

All of them said that Salman Taseer’s sacrifice for a liberal and enlightened Pakistan will never be forgotten and he will live on in the hearts of peace loving Pakistanis and the supporters of Pakistan abroad. They called Salman Taseer a Shaheed (martyr) who fought for democracy all his life and stood for the finest values of Pakistan.

Prayers were offered by the mourners on the occasion and a minute’s silence was held in his honour.APP adds: Bilawal said the only way to rid Pakistan of all its ills is to ensure that democracy prevails. “To those who dare attack my religion especially those who corrupt its peaceful message, you are what I call covert culprits and you will be defeated. This shall be our jihad. Jihad against those who use our religion as a tool to justify their violence, suicide attacks and mass murder. They believe erroneously that their crimes will take them to heaven.”

Bilawal pointed out that the assassination of Taseer is not about the liberal versus conservatives or moderate Islam against radical Islam. He told a large gathering which also included his aunt Sanam Bhutto that the people of Pakistan yearn for peace, security and prosperity and they do not vote for violence and bloodshed. “Those who preach hatred in the name of Islam have never and will never enjoy the electoral support of the people of Pakistan,” he declared.

Bilawal said like his mother who was martyred during her Jihad against those who had hijacked Islam and because she spoke against the oppressors both those who ran Pakistan and those who exploited Islam, Taseer, too, was gunned down because he, too, refused to be silenced.

Bilawal calls Qadri, supporters real blasphemers
 
^^ already a thread exists on the above...but ya sitting in UK i guess bilawal can say anything and can make anybody shaheed!

damn i mean rest of the pakistanis just DIE but if you are in PPP you are a shaheed!
 
RasulAllah ( صلى الله عليه وسلم )
said "Do not abuse the dead, for they
have reached the result of what they
have done." [Bukhari, Volume 8, Book
76, Number 523]
 


اس کرہِ ارض کی آبادی چھ ارب نوے کروڑ ہے۔اس میں ایک ارب ستاون کروڑ مسلمان ہیں۔ یعنی دنیا کے ہر چوتھے شخص کی وابستگی اسلام سے ہے۔ باون ممالک اور خطوں میں اکثریتی آبادی مسلمان ہے۔ اس دنیا کے تریپن فیصد مسلمان پندرہ ممالک میں بستے ہیں۔

(ایک)

انڈونیشیا کی پچیس کروڑ آبادی میں سے چھیاسی فیصد کلمہ گو ہیں۔انیس سو پچھتر میں قائم ہونے والی انڈونیشین علما کونسل شرعی قوانین کے نفاز میں حکومت کی رہنمائی کرتی ہے۔دو ہزار چھ میں انڈونیشیا میں چھ مذاہب کو سرکاری عقیدہ تسلیم کیا گیا۔اسلام ، کیتھولک ازم، پروٹسٹنٹ ازم ، بدھ ازم ، ہندو ازم اور کنفیوشس ازم۔انڈونیشیا کے پینل کوڈ کے آرٹیکل ایک سو چھپن اے کے تحت توہینِ مذہب اور مذہبی منافرت پھیلانے کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس قید ہے۔

( دو)

ملیشیا میں ستر فیصد آبادی مسلمان ہے
انڈونیشیا کے ہمسایہ ملک ملیشیا میں ستر فیصد آبادی مسلمان ہے۔سیکولر عدالتوں کے ساتھ ساتھ شرعی عدالتی نظام بھی کام کرتا ہے۔ملیشین وفاق میں شامل کئی ریاستوں میں قانون سازی کا ماخذ شریعت ہے۔وفاقی پینل کوڈ کے آرٹیکل دو سو پچانوے اور دو سو اٹھانوے اے کے تحت توہینِ مذہب کی زیادہ سے زیادہ سزا تین سال قید اور ایک ہزار امریکی ڈالر کے مساوی جرمانہ ہے۔

(تین)

ملیشیا سے ذرا پرے آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا مسلمان ملک بنگلہ دیش ہے۔پندرہ کروڑ میں سے تراسی فیصد آبادی کلمہ گو ہے۔انیس سو ترانوے میں جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش نے ایک قانونی بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جس کے تحت پاکستان کی طرز پر توہینِ قرآن و رسول پر عمر قید اور سزائے موت تجویز کی گئی۔لیکن یہ بل مسترد ہوگیا۔اس وقت بنگلہ دیشی پینل کوڈ کے آرٹیکل دو سو پچانوے اے کے تحت توہینِ مذہب پر پانچ برس تک قید اور جرمانے کی سزا ہے۔

( چار)

افغانستان کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ سن دو ہزار چار میں نافذ ہونے والے آئین کے تحت عدالتیں جرم کی سنگینی کے حساب سے توہینِ مذہب پر سزائے موت تک دے سکتی ہیں۔لیکن اگر مجرم سزا سنائے جانے کے تین روز کے اندر اظہارِ پشیمانی کرے تو سزا ساقط بھی ہوسکتی ہے۔

( پانچ)

ایران میں ننانوے فیصد مسلمان ہیں
ایران کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے اور ملکی قوانین کا ماخذ فقہِ جعفریہ ہے۔ایرانی پینل کوڈ میں توہینِ مذہب کے لئے علیحدہ سے کوئی شق نہیں بلکہ اسلامی حکومت کی مخالفت ، توہینِ مذہب اور اکثریتی عقیدے سے متصادم مواد کی اشاعت پر سزاؤں کو ایک ہی خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ان میں سے کسی جرم پر بھی اس کی سنگینی کے اعتبار سے سزائے موت تک دی جاسکتی ہے۔

(چھ)

سعودی عرب کی لگ بھگ سو فیصد آبادی مسلمان ہے۔سعودی پینل کوڈ حنبلی مکتبہِ فکر کے تحت بنائے گئے شرعی قوانین ، فتاوی اور شاہی فرمانوں اور ان کے تحت وقتاً فوقتاً بنائے جانے والے ذیلی ضوابط کا مجموعہ ہے۔توہینِ مذہب حدود کے دائرے میں آتا ہے۔ جرم کی سنگینی کے اعتبار سے جرمانے ، کوڑوں ، قید یا موت کی سزا دی جاسکتی ہے۔ بادشاہ پشیمانی ظاہر کرنے پر مجرم کو معاف بھی کرسکتا ہے۔

(سات)


سعودی ہمسائے یمن کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔اسلام سرکاری مذہب ہے۔توہینِ مذہب کے مقدمات کا فیصلہ شرعی قوانین کے تحت کیا جاتا ہے اور جرم کی سنگینی کے اعتبار سے کوڑوں اور قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔

( آٹھ)

متحدہ عرب امارات کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ تمام سرکاری و نجی سکولوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم لازمی ہے۔توہینِ مذہب پر جرم کی نوعیت کے اعتبار سے جرمانے یا قید کی سزا ہوسکتی ہے۔لیکن انیس سو ترانوے میں وفاقی سپریم کورٹ کی دی گئی رولنگ کے مطابق شرعی سزاؤں کا اطلاق غیر مسلمانوں پر نہیں ہوگا۔

( نو)

کویت میں قانون سازی کا منبع شریعت ہے۔ لیکن توہینِ مذہب کا معاملہ انیس سو اکسٹھ کے پریس اینڈ پبلیکشنز لا کا حصہ ہے۔ کوئی بھی تحریر و تقریر جس سے مذہب یا مقدس شخصیات کی اہانت کا پہلو نکلتا ہو اس پر جرمانے یا قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

( دس)

اردن کی پچانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اسلام سرکاری مذہب ہے۔ توہینِ مذہب کے قانون کے تحت تین برس تک قید اور جرمانے کی سزا ہے۔

( گیارہ)

ترکی کی ساڑھے سات کروڑ کی آبادی میں پچاسی فیصد مسلمان ہیں۔ ملک پر پچھلے دو ادوار سے اسلام پسند جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ توہینِ مذہب کے لئے علیحدہ سے کوئی قانون نہیں ہے۔ البتہ ترک پینل کوڈ میں دو ہزار پانچ میں شامل کئے گئے آرٹیکل تین سو ایک کے تحت ترک قوم اور اس کی اقدار، ریاست، پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج کی ہتک پر چھ ماہ سے دو برس تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔

( بارہ)

مصر کی نوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ سرکاری مذہب اسلام ہے۔ تمام نجی و سرکاری سکولوں میں اسلامک سٹڈیز لازمی مضمون ہے۔ ہر مصری شہری کے شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ بھی ہے۔ جامعہ الازہر کی اسلامک ریسرچ کونسل مذہبی امور پر حکومت کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس کونسل کی اجازت کے بغیر کوئی بھی مذہبی کتاب شائع نہیں ہوسکتی۔ سن دو ہزار چھ میں بننے والے توہینِ مذہب کے قانون کے تحت چھ ماہ تا پانچ برس قید اور ایک ہزار پاؤنڈ جرمانے تک سزا ہوسکتی ہے۔

( تیرہ)

لجزائر کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اسلام سرکاری مذہب ہے۔ انیس سو نوے کے ایک قانون کے تحت وزارتِ مذہبی امور ایسی کسی بھی شے کی اشاعت کو روک سکتی ہے جس سے توہین مذہب کا پہلو نکلتا ہو۔ پینل کوڈ کے تحت مذہبی اہانت پر دو سال تک قید اور پانچ لاکھ دینار تک سزا ہے۔

( چودہ)

نائجیریا کی ساڑھے بارہ کروڑ آبادی میں پچھتر فیصد مسلمان ہیں۔ ملک کے مسلم اکثریتی علاقوں میں شرعی و سیکولر عدالتی نظام کام کرتا ہے۔ پینل کوڈ کی شق دو سو چار کے تحت توہینِ مذہب کی سزا دو برس تک ہے۔

( پندرہ )

محمد علی جناح سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک کسی کو بھی خیال نہیں آیا کہ یہ دفعات ناکافی ہیں۔اگر خیال آیا تو تیسرے فوجی آمر ضیا الحق کو۔ جس نے دفعہ دو سو پچانوے اور دو سو پچانوے اے کے ہوتے ہوئے بھی دو سو پچانوے بی کا اضافہ کیا جس کے تحت قرانِ کریم کی براہ راست یا بلا واسطہ یا اشاروں یا کنایوں میں توہین کی سزا عمر قید رکھی۔
سوڈان کی چار کروڑ تیس لاکھ آبادی میں ستر فیصد مسلمان ہیں۔کرمنل ایکٹ کے سیکشن ایک سو پچیس کے تحت توہینِ مذہب کے مجرم کو جج جرم کی نوعیت دیکھتے ہوئے جرمانے ، قید یا چالیس کوڑوں کی سزا دے سکتا ہے۔
پاکستان کی سترہ کروڑ آبادی میں مسلمان ستانوے فیصد ہیں۔ پاکستان کے پینل کوڈ کی دفعہ ایک سو تریپن اے کے تحت توہینِ مذہب اور مذہبی منافرت پھیلانے کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس قید ہے۔ دفعہ دو سو پچانوے کے تحت مذہبی عبادت گاہوں کی بے حرمتی اور توڑ پھوڑ قابلِ تعزیر جرم ہے۔ جبکہ دفعہ دو سو پچانوے اے کے تحت زبان یا قلم سے مذہبی جذبات مجروح کرنے پر قید ، جرمانے یا اشاعت شدہ مواد کی ضبطی ہوسکتی ہے۔ اس دفعہ کے تحت قرآن سمیت تمام الہامی کتابیں اور رسولِ اکرم سمیت تمام انبیا کی توہین کا احاطہ ہوتا ہے۔
تیس برس تک چار گورنر جنرل ، چار فوجی و غیر فوجی صدور اور آٹھ وزرائے اعظم اور تمام دینی و سیاسی جماعتیں انہی تین دفعات کو احترامِ مذہب کے لئے کافی سمجھتے رہے۔ محمد علی جناح سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک کسی کو بھی خیال نہیں آیا کہ یہ دفعات ناکافی ہیں۔اگر خیال آیا تو تیسرے فوجی آمر ضیا الحق کو۔ جس نے دفعہ دو سو پچانوے اور دو سو پچانوے اے کے ہوتے ہوئے بھی دو سو پچانوے بی کا اضافہ کیا جس کے تحت قرانِ کریم کی براہ راست یا بلا واسطہ یا اشاروں یا کنایوں میں توہین کی سزا عمر قید رکھی۔ (تورات ، زبور اور انجیل سمیت کسی اورالہامی کتاب یا صحیفےپر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا)۔ جبکہ دفعہ دو سو پچانوے سی کے تحت رسولِ اکرم کی براہ راست یا بلا واسطہ یا اشاروں یا کنایوں میں توہین کی کم ازکم سزا موت رکھی۔( اس دفعہ کے دائرے میں دیگر انبیائے کرام نہیں آتے)۔

ضیاالحق کے دور میں ملک میں کلاشنکوف اور ہیروئین کی بیماریاں پھیلیں
یوں ضیا الحق نے پاکستان کو دنیا کا واحد مسلمان ملک بنا دیا جہاں توہینِ مذہب کا قانون پہلے سے نافذ ہوتے ہوئے بھی الہامی کتابوں اور انبیائے کرام کی توہین کو نئی درجہ بندی میں بانٹ دیا گیا اور شاہ خالد بن عبدالعزیز کے مشیر ڈاکٹر معروف دوالبی ، شریف الدین پیرزادہ ، اے کے بروہی ، ڈاکٹر تنزیل الرحمان ، جسٹس افضل چیمہ اور مولانا ظفر احمد انصاری وغیرہ کی رہنمائی میں مرتب کردہ حدود اور توہینِ مذہب کے قوانین کے مسودات کو الہامی دستاویزات کے مساوی سمجھ لیا گیا۔
چنانچہ ضیا الحق کے بعد آنے والی جس حکومت نے بھی اس قانون کے انتقامی استعمال کو روکنے کے لئے ترمیم کی بات کی اسے شریعت دشمن قرار دیا گیا۔ترمیم تو کجا اس قانون کے تحت ہونے والی زیادتیوں کی جانب اشارہ بھی گناہِ کبیرہ اور لائقِ قتل قرار پایا۔زیریں عدالتیں ہجوم کے دباؤ میں آتی چلی گئیں۔اور مقدمے کے دوران یا با عزت بری ہونے کی صورت میں بھی ملزموں کو یا تو قتل ہونا پڑا ، یا چھپنا پڑا یا ملک چھوڑنا پڑا۔
سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان میں اکتیس برس سے نافذ توہینِ مذہب کا قانونی مسودہ واقعی الہامی حیثیت رکھتا ہے تو پھر سعودی عرب اور ایران سمیت دنیا کا کوئی اور مسلمان ملک اب تک اسے اپنا ماڈل نا بنا کر اسکے فیوض و برکات سے کیوں محروم ہے۔
تو کیا پاکستان کے علاوہ باقی مسلمان ممالک اور حکومتوں کا عقیدہ کمزور یا گمراہ ہے یا وہ اسلام کی اس تشریح کو سمجھنے سے قاصر ہیں جسے پاکستانی مسلمانوں کا ایک طبقہ درست سمجھتا ہے۔
پاکستان میں دنیا کی کل مسلمان آبادی کا صرف گیارہ فیصد بستا ہے۔اس گیارہ فیصد میں ایسے کیا سرخاب کے پر لگے ہیں جو انڈونیشیا ، بنگلہ دیش اور نائجیریا کو بھی نصیب نہیں۔ حلانکہ ان تین ممالک میں مجموعی طور پر ساڑھے باون کروڑ مسلمان رہ رہے ہیں۔

کاش انہیں بھی کوئی ضیا نصیب ہو جائے ۔کاش ان کی بھی زندگی اور آخرت سنور جائے

۔
?BBC Urdu? - ????????? - ???? ????? ??? ?? ???? !?

read this also

Jang Group Online

TARIQ
 

Back
Top Bottom